مجھے یہ قول درست نہیں لگتا کہ "جس سے آپ محبت نہ کرسکیں، اس سے نفرت کرتے ہیں"۔ نفرت، محبت کے سکے کا دوسرا رخ نہیں ہے۔ محبت، سکہ نہیں ہے۔ ویسے بھی ہر سکے کا دوسرا رخ، پہلے رخ کے یکسر الٹ نہیں ہوا کرتا۔
ہم بہت سے لوگوں، چیزوں، کتابوں، مناظر سے محبت نہیں کرسکتے، کبھی اپنی حدوں کے سبب، کبھی اپنی نااہلی کے باعث اور کبھی محض بے ذوقی کی وجہ سے، حالاں کہ وہ سب محبت کے قابل ہوتے ہیں۔ ہم ان سے نفرت نہیں کرتے، ان سے معذرت خواہ ہوا کرتے ہیں۔ لازم نہیں کہ محبت نہ کرسکنےو الا دل، نفرت سے بھر جاتا ہو۔ حسن ومسرت سے محروم رہنے والا دل، مایوس و بے زار ہوسکتا ہے، متنفر نہیں۔
نفرت کے اسبا ب دیگر ہیں اور متعدد ہیں۔ کچھ اسباب حقیقی ہیں اور کچھ حقیقی تصور کر لیے جاتے ہیں۔
نفرت کا ایک سبب، خطرہ ہے۔ ہم ہر اس شے سے نفرت کرتے ہیں جسے ہم خطرے کے طور پر پہچانیں۔ ہر خطرہ ہمارے لیے غیر ہے۔ ہم سے یکسر مختلف، اور اسی باعث ہمارا عدو ہے۔
جب اس خطرے کا سامنے آکر مقابلہ نہ کیا جاسکتا ہو۔ سامنے آکر مقابلہ کرنے کے لیے آدمی کو بہت کچھ چاہیے: ہمت، طاقت، بہادری، اعلیٰ ظرفی، اخلاقی جواز اور اخلاقی جرأت۔
آخر آپ مقابلہ کرنا ہی کیوں چاہتے ہیں؟ آپ کو کسی چیز، کسی آدمی، کسی صورتِ حال، کسی کتاب، کسی زمانے سے خطرہ کیوں ہے؟ کیا وہ آپ کی بقا کے لیے خطرہ ہے؟ آپ کی نام وری، نیک نامی، عزت، آبرو، عہدے، مرتبے، اقتدار کے لیے خطرہ ہے؟
کیا وہ ایک ایسا چراغ ہے، جس کی لو، آپ کے وجود کی ننھی روشنی کو نگل سکتی ہے؟
کیا وہ ایک ایسا کوہ گراں ہے، جو آپ کو ہر سمت دکھائی دیتا ہے، اور آپ پر گرتا محسوس ہوتا ہے؟ آپ ا س کے سامنے خود کو پستا محسوس کرتے ہیں؟
کیا آپ اسے خطرہ سمجھنے میں واقعی حق بجانب ہیں؟
خطرےکا واقعی ہونا، اور کسی شے کو خطرہ سمجھا جانا دو الگ باتیں ہیں۔ جب آدمی کے پاس کسی خطرے کے ضمن میں مذکورہ بالا سوالوں کے جواب نہیں ہوتے تو اس کا دل نفرت سے بھر جاتا ہے۔
نفرت کا آغاز، فہم کی ناکامی سے ہوتا ہے، اور اس میں شدت آدمی کی حقیقی دنیا میں ناکامی کے سبب آتی ہے۔
نفرت، بزدلی اور ریاکاری کا گہرا تعلق ہے۔ بہادر آدمی میدان میں لڑتا ہے، سامنے آکر لڑتا ہے، اس کے پاس لڑائی کا اخلاقی جواز ہوتا ہے، لڑائی کے اصول ہوتے ہیں، ان اصولوں پر عمل کرنے کا ظرف بھی ہوتا ہے۔
جب کہ بزدل آدمی چھپ کر وار کرتا ہے، کبھی دوسروں کو آڑ بنا کر، کبھی خود اپنے وجود کے تاریک گوشے (شیڈو) کے پیچھے چھپ کر۔
چھپ کر وار وہی کرتا ہے، جس کے پاس لڑائی کا اخلاقی جواز ہو، نہ ہمت ہو۔
نفرت، چھپ کر کیا گیا وار ہے۔ نفرت، چھپی رہنا چاہتی ہے۔ وہ انسانی دل کے ایک تاریک گوشے میں ایک بانبی بناتی ہے، اور اس میں مدمقابل پر وار کرنے کی تدبیریں بناتی رہتی ہے۔ جس دل میں نفرت کی یہ بانبی بن جاتی ہے، اس دل میں اور کئی بھٹ، بل، جوف، چاہ، گڑھے بھی بن جاتے ہیں۔ نفرت، پوری ایک بستی بسالیتی ہے۔ نفرت کرنے والا دل حشرات، خزندوں، مورِ کلاں اور مارِ سیاہ کی آماج گاہ ہوتا ہے۔ یہ سب چھپ کر، موقع تلاش کرکے، اس پر حملہ کرتے ہیں، جسے خطرہ سمجھتے ہیں۔
نفرت میں آدمی، اس قدیمی دنیا میں لوٹ جاتا ہے، جب ابھی انسانی تمدن نام کی چیز وجود میں نہیں آئی تھی۔ جب آدمی کی بقا کی جبلت کو کسی روک ٹوک کا سامنا نہیں تھا، جب کوئی اخلاقی سوال سرے سے موجود ہی نہیں تھا۔
نفرت، آدمی کے دل کو آدمی کا دل نہیں رہنے دیتی اور ہر اس شے کے درپے رہتی ہے، جس کی تخلیق میں انسان نے اپنی بہترین صلاحیتیں صرف کی ہوتی ہیں۔ اوراس میں خودنفرت کرنےوالےکادل ودماغ اورشخصیت بھی شامل ہے!