1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ناصر عباس نیّر/
  4. روشني، تاریکی اور دانائی

روشني، تاریکی اور دانائی

"جو ذہن ایک بار روشنی کا تجربہ کرتا ہے، وہ تاریکی کی طرف نہیں لوٹ سکتا"۔ یہ بات الفاظ کی تبدیلی کے ساتھ عام طور پر کہی جاتی ہے۔ مثلاً کہاجاتا ہے کہ جو ایک بار نروان، روحانی بلندی، اخلاقی تزکیہ، پارسائی وغیرہ حاصل کر لیتا ہے، وہ سدا ان پر قائم رہتا ہے۔ جس نے ایک بار بڑا فن پارہ تخلیق کر لیا، اس کے قلم سے ہر بار اعلیٰ فن پارے سرزد ہوں گے۔

یہ سب باتیں درست نہیں ہیں۔ آدمی کا ذہن کسی ایک تجربے کی روشنی یا اس کی تاریکی کی یادداشت کو محفوظ رکھ سکتا ہے، خود اس تجربے کو بہ تمام و کمال نہیں۔ کسی تجربے کی یادداشت دہرائی جاسکتی ہے، اس یادداشت میں ترمیم و اضافہ بھی کیا جاسکتا ہے، مگر کوئی یادداشت، اصل تجربے کا متبادل نہیں ہوتی۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ کسی تجربے کی یادداشت بھی ہمیشہ ایک ہی طرح سے نہیں دہرائی جاسکتی۔ ہر بار دہرانے سے، یادداشت میں کچھ نہ کچھ نیا پن ضرور ہوتا ہے۔ البتہ عصبی خلل میں یادداشت ایک مقام پر ضرور رک سکتی ہے۔

روشنی کے تجربے میں لذت، توانائی، کشادگی، ایک قسم کا سادہ پن ہوا کرتا ہے۔ اس کا اثر آدمی کے پورے وجود پر ہوسکتا ہے۔ آدمی کو ایک نئی نفسی دنیا میں لے جاسکتا ہے۔ اس کے وجود کے کسی خلا کو پر کرسکتا ہے، مگر کچھ دیر کے لیے۔ ہر تجربے کا ایک دورانیہ، اور اس کے اثر کی ایک عمر ہے۔

اس کے باوجود یہ تجربہ دہرایا نہیں جاسکتا۔ ہاں کوئی نیا تجربہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ پہلے تجربے سے بہتر بھی ہوسکتا ہے، کم تر بھی یا اس سے جدا بھی۔ کوئی نیا تجربہ ہوبہو پہلے تجربے کی مانند نہیں ہوسکتا۔

آدمی کے ایک تجربے کی تشکیل میں کئی خارجی و داخلی عناصر بہ یک وقت کام کررہے ہوتے ہیں۔ وہ عناصر دوبارہ اسی طرح نہ تو موجود ہوتے ہیں اور نہ ان میں باہمی تعلق، پہلے تجربے کی مانند، وجود میں آسکتا ہے۔

کوئی تجربہ دہرایا نہیں جاسکتا۔ ایک تجربے کو ممکن بنانے والے تما م عوامل کو دوبارہ خلق نہیں کیاجاسکتا۔ وقت پیچھے نہیں جاسکتا۔ چیزوں کی سابق ترتیب از سرنو، پہلے کی مانند، پیدا نہیں کی جاسکتی۔ ہاں، ان سب کی تخیلی باز یافت کی جاسکتی ہے۔

کسی حقیقی تجربے اور اس کی تخیلی بازیافت میں ہمیشہ فرق رہتا ہے۔ اصل اور نقل کا۔ نقل ہو بہو، ہوکر بھی نقل ہی رہتی ہے۔

چناں چہ جو ذہن ایک بار روشنی کا تجربہ کرتا ہے، وہ تاریکی کی طرف جاسکتا ہے۔ ایک نیک آدمی سے بھی برے کام کی توقع رکھی جاسکتی ہے، اور برے آدمی سے نیکی کی۔

تاریکی کی طرف جانے والا ذہن، روشنی کی طرف بھی آسکتا ہے۔

انسانی ذہن، ان دونوں کے سوا کچھ اور منطقوں کی طرف بھی جاسکتا ہے۔ آدمی روشنی وتاریکی کی جدلیات سے، ماورا ہوسکتا ہے۔

ایک بار اعلیٰ فن پارہ تخلیق کرنےو الے سے ٹریش سرزد ہوسکتا ہے اور مسلسل ٹریش لکھنےو الے سے کوئی اچھی تحریر بھی سرزد ہوسکتی ہے۔

البتہ روشنی وتاریکی کے تجربوں سے دانائی اخذ کی جاسکتی ہے۔ یعنی کوئی اصول، بصیرت، بنیادی، اہم، حکیمانہ بات۔

تجربے کو دہرانا ممکن نہیں، دانائی کو برقرار رکھنا ممکن ہے۔

اسی طرح اعلیٰ فن پارے کی تنقیدی بصیرت بھی اخذ کی جاسکتی ہے، اوریہ بصیرت ا پنے قلم سے سرز د ہونےو الے ٹریش کی اشاعت سے آدمی کو باز رکھ سکتی ہے۔

جب ساری دنیا آدمی سے رخ موڑ لے، یہ دانائی آدمی کا ہاتھ پکڑے رہتی ہے۔ اپنے ہی تجربات سے اخذ کی گئی دانائی، زندگی کے پرشور سمندر میں آدمی کا واحد، قابل اعتبار لنگر ہے!