1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. ناصر عباس نیّر/
  4. سماجی جگہوں پر قبضے کی جنگیں

سماجی جگہوں پر قبضے کی جنگیں

ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں جنگیں دو طرح کی رہی ہیں اور اس وقت بھی جاری ہیں۔ زمینوں اور ذہنوں پر قبضے کی جنگیں۔ زمین اور ذہن دونوں وسائل سے مالامال ہیں۔ انھیں چھیننا، ان پر قبضہ کرنا، انھیں اپنے تصرف میں لانا مقصود ہوا کرتا ہے۔ اس کے لیے طاقت، تزویر، منطق اور تعبیر کا استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ استعمال بھی ہر طرح کا ہوتا ہے: اندھا، سوچا سمجھا، راست، بالواسطہ، ننگا، عیارانہ، مکارانہ، اور بے رحمانہ۔

زمین اور ذہن دونوں دراصل جگہیں اور مقامات ہیں۔ زمین پر قبضے کے بعد، اپنے قبضے کا جواز پیش کرنا ہوتا ہے۔ اس کے لیے ذہن کو میدانِ جنگ بنایا جاتا ہے۔

جو گروہ زمین پر قبضہ نہیں کرسکتے، یا جہاں زمینوں پر قبضہ ممکن نہیں ہوتا، وہاں ذہنی جگہوں اور مقامات پر قبضے کی جنگ، دن رات لڑی جاتی ہے۔ تاہم کچھ طبقات، ان جنگوں کا حصہ نہیں بنتے، وہ محض امن سے جینا چاہتے ہیں، اپنی قدیمی و اصل شناختوں کے ساتھ۔ یہ الگ بات کہ انھیں بھی جنگ کا ایندھن بنانے کی کوشش کی جانے لگتی ہے۔

جب تک معاشرے زبانی روایات کے حامل تھے، اساطیر، کہانیوں، لوک ادب، زبانی تاریخی روایات کے ذریعے، یہ جنگیں لڑی جاتی تھیں۔ اساطیر کا جواب اساطیر سے دیا جاتا تھا۔ کہانی کا جواب کہانی سے دیا جاتا تھا۔ تحریری روایت کا آغاز ہوا تو جنگ کا میدان کتابیں، رسائل، اخبارات بنے۔ زبانی روایت کے زمانے میں ٹیبو تھے اور تحریری روایت کے عہد میں سنسر کے قوانین سامنے آئے۔

دل چسپ بات یہ ہے کہ ٹیبو اور سنسر قوانین دونوں بہ یک وقت اخلاقی اور قانونی پہلو رکھتے تھے۔ اخلاق کی چھڑی، قانون کی چھڑی کے ساتھ استعمال ہوا کرتی۔ فریق مخالف کو "علم، خیالات، آرا، کہانیوں" کی جنگ میں بے دست وپا کرنے یا فاش شکست دینے کے لیے، اخلاق و قانون کی طاقت، ادارہ جاتی سطح پر استعمال کی جاتی۔

جب سے سوشل میڈیا آیا ہے، سوشل سپیس کے زیادہ سے زیادہ حصے کو اپنے قبضہ قدرت میں لینے کی جنگوں میں شدت آگئی ہے۔ اب سوشل سپیس تک پہنچنے کے لیے ورچوئل سپیس کے دریا کو عبور کرنا پڑتا ہے۔ اب گھمسان کا رن، اسی ورچوئل سپیس کے دریا میں پڑا ہے۔ ورچوئل سپیس، ہر طرح کے فکشن، متھ، پوسٹ ٹروتھ کے لیے زرخیز زمین ثابت ہوئی ہے۔ چناں چہ کہانیوں، بیانیوں، تبصروں، پوسٹوں، آرا، بلاگوں کا سیلابِ بلا ہے۔ یہ نیا میدانِ جنگ، میدان حشر بنا ہوا ہے۔ نئے خداؤں کا برپا کیا ہوا میدانِ حشر!

بیسویں صدی میں سماجی جگہ یعنی سوشل سپیس کا تصور متعارف ہوا۔ یہ واضح کرنے کے لیے کہ صرف زمین جگہ نہیں ہے، خود سماج بھی جگہ ہے۔ لوگ کیا سوچتے، کیا رائے رکھتے ہیں، کسے اہم، کسے غیر اہم اور کسے درست اور کسے غلط سمجھتے ہیں یا کن اقدار کو اہم یا غیر اہم قرار دیتے ہیں، کن نظریات و عقائد کی حمایت اور کن کی مخالفت کرتے ہیں، اس سب سے سماج بنتا ہے۔ چناں چہ سب سے بڑی جنگ، سوشل سپیس پر قبضے کی جنگ ہے۔

اب چوں کہ ایک سماج میں کئی گروہ ہوتے ہیں تو سوشل سپیس کی بھی کئی قسمیں اور صورتیں ہیں۔ چناں چہ ایک سماج میں کئی گروہوں میں یہ جنگ جاری رہتی ہے۔

ایک مخصوص نظریہ، مسلک، آئیڈیالوجی رکھنے والا ہر چھوٹا بڑا گروہ، دراصل اپنی سوشل سپیس ہی میں موجود ہوا کرتا ہے۔ یہ سوشل سپیس موجود ہی اس صورت میں ہوسکتی ہے کہ اس پر لکھا، بولا جاتا رہے، اس کی اشاعت ہوتی رہے، اس پر قائم ہونے والے سوالات کے جوابات دیے جاتے رہیں۔ یوں سمجھیے، اسے اپنی بقا کا سوال مسلسل درپیش رہتا ہے۔

کچھ گروہ، صرف اپنی بقا چاہتے ہیں، اور یہ اصول دوسروں کے لیے بھی پسند کرتے ہیں۔ انھیں اپنی سوشل سپیس ترک کرنا پسند ہوتا ہے نہ کسی سے ان کی سپیس چھیننا۔ وہ صرف بقا نہیں، بقائے باہمی کے قائل ہوتے ہیں۔

مگر کچھ گروہ اپنی بقا کے ساتھ توسیع بھی چاہتے ہیں اور اپنی طاقت میں زیادہ سے زیادہ سے اضافہ۔ چناں چہ وہ کئی طریقے اختیار کرتے ہیں: ترغیب، لالچ، ڈر، اور باقاعدہ جنگجویا نہ زبان۔ وہ ان سب گروہوں سے، ان کی سوشل سپیس چھین لینے میں یقین رکھتے ہیں، جن سے ان کا نظریاتی، مسلکی، آئیڈیالوجیائی اختلاف ہوتا ہے۔ وہ دوسروں کو اختلاف کرنے کا حق نہیں دیتے۔ انھیں کٹہرے میں کھڑا ہونا پسند نہیں ہوتا۔ وہ دوسروں کو صلیب پر پہنچانے سے دریغ نہیں کرتے۔

ان کے پاس جنگ کے لیے کئی ہتھیار ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے مہلک ہتھیار، تقدیس اور خود راستی کے ہوتے ہیں۔ وہ ان ہتھیاروں کی دھار کو اپنی گروہی، تاریخی قدامت کی منطق سے تیز کرتے ہیں، اور پوری طاقت سے چلاتے ہیں۔ پوری طاقت میں تکبر اور بے رحمی اپنی انتہا پر ہوتے ہیں۔ دوسروں کے جسموں اور عزت نفس کو پہنچنے والی اذیت کو محسوس کرنے کے سب راستے بند ہوجایا کرتے ہیں۔

وہ زمین پر ایک فانی، خطا پذیر انسان کے طور پر نہیں، منتخب وجلیل ہستی کے طور پر خطاب کرتے ہیں۔ وہ سر تسلیم خم کرنے والے سامعین پسند کرتے ہیں، متجسس اذہان نہیں۔

سوشل میڈیا پر اب انھیں راست اور بالواسطہ چیلنج کرنے والے موجود ہیں، مگر اصل سوال یہ ہے کہ کیا وہ ان کی سوشل سپیس میں، اپنی منطق کا نفوذ کر پائیں گے؟ ان کے مہلک ہتھیاروں کی دھاروں کو کند کر پائیں گے، اور انھیں یہ اصول باور کراپائیں گے کہ اپنی بقا و توسیع پسندی سے بڑھ کر بقاے باہمی کا اصول اہم ہے؟ یا محض اپنی ہی سوشل سپیس میں بیٹھے، ان سے اپنے اختلافات کا اظہار کرتے رہیں گے، جو دراصل خود کلامی کی ایک صورت ہے؟

پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ!