(اس افسانہ میں شہزادہ آزاد بخت اور مکھی کے کردار انتظار حسین کے افسانہ "کایا کلپ" سے لیے گئے ہیں۔ The Frog Prince ایک جرمن کہانی ہے)۔
برسات کو کس نے سہانا موسم کہہ دیا؟ ہندوستان میں جو بھی آیا لوگوں نے کچھ دیکھے سوچے سمجھے بغیر اسے اپنا لیا، اس کی اچھائیاں برائیاں سب اختیار کر لیں۔ برسات مشہد و شیراز کے ٹھنڈے علاقوں میں خوشگوار رہی ہوگی۔ فارسی ادب میں اس موسم کو پیارا لکھا جاتا تھا۔ اردو والوں نے بھی اس کہانی کو قبول کر لیا۔ ہمارے ہاں تو اس موسم میں گرمی اور حبس، ہوا دم سادھے زمین پر لیٹ جاتی ہے تو پسینہ پرنالوں کی طرح بہتا ہے: انسان کو خود سے بھی بدبو آنے لگتی ہے۔ بارش اور پانی کے ساتھ مکھیوں کی بہتات، مچھروں کی یلغار اور مینڈکوں کی ٹر ٹر۔
اس موسم میں شادی؟ اس نے انکار کر دیا۔ برسات گزرے گی تو پھر سوچوں گی۔
ایونٹ کے بارے میں سارے فیصلے اس نے خود کیے۔ کس کس کو بلایا جائے؟ لہنگا کس رنگ کا ہوگا اور دلہا کیا پہنے گا؟ وینیو کون سا ہوگا؟ ویڈنگ پلانر کو خود سمجھایا کہ کیا کیا کرنا ہے؟ مردوں کو ان باتوں کا کیا پتا؟ منصور سے پوچھنا بھی گوارا نہ کیا، "مرد کہاں ایسی باتوں پر غور کرتے ہیں؟ ویسے بھی وہ کہتے ہیں کہ مجھے تمہاری خوشی عزیز ہے"۔ ہر مشورہ دینے والے کو یہ جواب اتنی مرتبہ دے چکی تھی کہ اب منصور کے بارے میں کوئی بات ہی نہیں کرتا تھا۔
وہ کئی دنوں سے رابطے میں نہیں تھا۔ بیچلر پارٹی تین ہفتے پہلے ہوئی تھی۔ وہ اپنی سہیلیوں کے ساتھ یورپ چلی گئی اور منصور دوبئی۔ اس نے جاتے وقت منصور کو کہہ دیا تھا، "مجھے ان دنوں میں تنگ نہ کرنا"۔ اگر وہ کال کرتا تو جواب نہ دیتی۔ صرف میسج پر بات ہوتی رہی۔ اس نے اپنی تصویریں شیئر کیں۔ منصور کی طرف سے گڈ اور اکسیلنٹ کے میسج آتے۔ لڑکے تو لڑکے ہوتے ہیں ان کی پارٹیوں میں گالیوں اور بدتمیزیوں کے علاوہ اور ہوتا ہی کیا ہے جو وہ اپنے پیج پر پوسٹ کر سکیں؟ لڑکیاں تو دلہن کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں اور مہک جیسی دلہن۔ اتنی پیاری دلہن!
دلہن بننے کے سپنے وہ بچپن سے دیکھ رہی تھی۔ جب وہ اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر شادیوں میں جاتی تو کہتی، "بابا، میں بھی دلہن بنوں گی"۔
"میری شہزادی جتنی خوبصورت کوئی دلہن ہو ہی نہیں سکتی"۔ بابا کا جواب سن کر وہ خوش ہو جاتی۔ وہ ماں کی شادی کی تصویریں دیکھ کر کہتی، "شادی کے لباس میں ماما بھی شہزادی لگ رہی ہیں"۔
وہ اسی طرح کا بڑا سا لہنگا پہننا چاہتی تھی جس پر تارے جڑے ہوں اور جو موتیوں سے بھرا ہوا ہو۔ جب اس نے لکھنا سیکھا تو شادی پر پہننے والے زیورات کی لسٹ بنانا شروع کر دی سب سے اوپر لکھا، "بالوں کی لٹیں جن میں ہیرے جواہرات جڑے ٹسل اور سر پر سونے کا تاج"۔
دلہن بنے کا خواب اب سچا ہو رہا تھا۔
شادی کی بات ہوئی تو اس نے فرمائش کی، "بابا آپ ڈانس کی ریہرسل کریں مہندی پر پہلا ڈانس میرا اور آپ کا ہوگا"۔
بچپن میں بابا کے بازو پر سر رکھ کر سوتے وقت شہزادی اور پریوں کی کہانی سننے کی فرمائش کرتی۔
***
آزاد بخت شہزادی کو آزاد کروانے دیو کے قلعے میں پہنچا تو واپسی کا کوئی راستہ نہ سوجھا۔ دن بیت گیا۔ شام ہوئی اور دیو کی دھمک سے قلعہ کے در و دیوار ہلنے لگے تو وہ چوکنا ہوا۔ مگر اس نے دیکھا کہ شہزادی نے اس کی طرف منھ کرکے پھونک ماری اور وہ سمٹنا شروع ہوگیا۔
شہزادہ آزاد بخت نے اس دن مکھی کی صورت میں صبح کی۔ اگلے دن اس نے بہت یاد کرنا چاہا کہ رات کس عالم میں گزری۔ پر اسے کچھ یاد نہ آیا۔
ہاں اس نے شہزادی کو پھونک مارتے دیکھ لیا تھا۔ اس کا ماتھا ٹھنکا کہ کچھ دال میں کالا ہے۔ وہ اس سے مخاطب ہوا کہ اے بدانجام میں تجھے سفید دیو کی قید سے آزاد کرانے کے جتن کرتا تھا۔ تو نے اس کا بدلہ مجھے یہ دیا کہ مجھ پر سحر پھونکا۔ شہزادی نے بہت حیلے بہانے کیے، مگر شہزادہ کسی صورت مطمئن نہ ہوا اور حقیقت جاننے کے در پے رہا۔ تب شہزادی نے کہا کہ اے نیک بخت میں جو کچھ کرتی ہوں تیرے بھلے کو کرتی ہوں۔ سفید دیو آدمی کا دشمن ہے۔ اگر تجھے دیکھ لے تو چٹ کر جائے اور مجھ پر ظلم توڑے۔ پس میں عمل پڑھ کر تجھے مکھی بناتی ہوں اور دیوار سے چپکا دیتی ہوں۔ رات بھر وہ مانس گند۔ مانس گند، چلاتا ہے اور میں کہتی ہوں کہ میں آدم زاد ہوں مجھے کھا لے۔ پھر جب صبح کو وہ قلعے سے رخصت ہوتا ہے تو میں عمل پڑھتی ہوں اور تجھے آدمی بناتی ہوں۔
"تو کیا شہزادہ مکھی بن کر راتیں گزارتا رہا"۔ اس نے اپنے بابا سے پوچھا۔
"شہزادی اسے مکھی نہ بناتی تو دیو اسے کھا جاتا"۔
"پھر وہ شہزادہ تو نہ ہوا، بزدل کہیں کا! اس کی مردانہ غیرت نے جوش نہ کھایا کہ اپنے مفاد کے لیے وہ ایک عورت کا مرہون منت ہے اور وہ اس کی جان بچانے کے لیے یہ انوکھا جتن کرتی ہے"۔
"شہزادہ بہت سوچتا رہا۔ کئی بار وہاں سے بھاگنا چاہا لیکن وہ شہزادی کا غلام بن گیا تھا۔ پھر ایک رات شہزادی نے اس پر منتر نہ پھونکا۔ اس رات دیو بھی مانس گند، مانس گند، نہ چلایا۔ شہزادے کی آدمی والی بو مر گئی تھی۔ اگلی صبح شہزادی نے شہزادے کو بنا منتر کے ہی مکھی بنا دیوار سے لپٹا دیکھا۔ وہ مکھی بن گیا تھا، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے"۔
***
رات بھر وہ مکھیوں کے خواب دیکھتی رہی۔ کبھی شہزادہ شہزادی کے ساتھ کھیلتا دکھائی دیتا۔ عیش و آرام سے لبریز دن اور پھر وہ اسے حقیر مکھی کی صورت میں دیوار سے چپکا نظر آتا۔
سکول سے واپس آ کر اس نے بابا سے کہا مجھے کل والی کہانی اچھی نہیں لگی۔
***
"آج میں تمہیں شہزادی اور مینڈک کی کہانی سناتا ہوں۔ شہزادی جس کا قیمتی گیند کنویں میں گر گیا اور اسے ایک مینڈک ڈھونڈ کر لایا۔ مینڈک کی شرط پوری کرتے ہوئے شہزادی نے اسے تین راتیں اپنے بستر پر سلایا۔ گندا مینڈک ساری رات ٹر ٹر کرتا اور کمرے سے بدبو بھی آتی رہتی۔ آخری رات وہ شہزادی کے پلنگ پر پھدک رہا تھا، شہزادی کو بہت غصہ آیا اور پکڑ کر دیوار پر دے مارا۔ چوٹ گہری آئی اور مینڈک مر گیا۔
شہزادی افسردہ ہوگئی اور اسے پکڑ کر پیار کرنے لگی۔ اسے بوسہ دیا تو وہ زندہ ہو کر اچھلنے لگا۔ اچھلتے اچھلتے وہ بڑا ہوتا گیا۔ پھر وہ انسان بن گیا۔
شہزادی حیران پریشان!
مینڈک نے اسے اپنی کہانی سنائی کہ جنگل کی ملکہ نے غلطیوں کی سزا پر اسے حقیر مینڈک بنا دیا تھا۔ وہ معافی کا طلبگار ہوا تو کہا کہ اگر کوئی شہزادی اس کے ہونٹوں پر بوسہ دے تو وہ دو بار انسان بن جائے گا"۔
بابا کہانی سنا کر خاموش ہوئے تو وہ پوچھنے لگی، "یہ کیسے شہزادے ہیں جو خود کچھ نہیں کرتے، شہزادیوں سے کھیلتے رہتے ہیں؟ ان کے سارے کام شہزادیاں ہی کرتی ہیں؟
بابا! وہ کئی سال مینڈک کی طرح کودتا پھلانگتا رہا تو واپس انسان بن کر بھی اس کی یہ عادت ختم نہیں ہوگی"۔
***
جوانی آئی تو بابا اور اس کی محبت میں بھی اضافہ ہوگیا۔ اب کہانیاں بھی مختلف ہوگئیں۔ فلمیں مل کر دیکھتے۔ بابا کی پسند پرانی اور اس کی جدید دور کی۔ قلوپطرہ دیکھتے ہوئے وہ سوچ رہی تھی کہ کتنی خوبصورت شہزادی ہے اور کیسی ذہانت سے اپنے عوام کو ظالم رومیوں کے استبداد سے محفوظ رکھا۔ اس کا پسندیدہ سین قلوپطرہ کی روم آمد تھا۔ سینکڑوں مرتبہ اسے دیکھ چکی تھی۔ کاش وہ بھی ایک ایسا ہی فلوٹ تیار کروا سکتی جس پر بیٹھ کر وہ اپنے دلہا کے سامنے آتی۔ اسی وجہ سے اس نے شادی کی شاپنگ کا آغاز اٹالین ہاؤس آف بیویلگری کا سونے کے سکوں والا نیکلس اور سرپنٹ بریسلٹ خرید کر کیا تھا۔
***
منصور اسے پہلی بار ایک سہیلی کی مہندی پر ملا تھا۔ اس کی طرف دیکھ رہی تھی تو سہیلی نے اس کے کان میں سرگوشی کی، "کیوٹ بوائے! "
ماتھے پر بکھری کالی سیاہ گھنی زلفیں، جوان گدرائے ہوئے جامنی ہونٹ، جو آب بھی تھے اور آتش بھی۔ ان میں ایسی مقناطیسیت تھی کہ وہ اس کی طرف کھنچتی چلی گئی۔ اسے خود پر اعتماد تھا کہ وہ اس کے دام حسن میں گرفتار ہونے سے نہیں بچ سکتا۔ جوان مرد حسن کے قدموں پر عزت، دولت، مذہب اور زندگی سب کچھ ہنسی خوشی لٹا دیتا ہے۔ یہی ہوا، دو ہفتے بعد ہی اس نے پروپوز کر دیا۔
پرانے شہر کے ہوٹل کے ایک خوبصورت کمرے میں بیٹھ کر دونوں نے مستقبل کی باتیں کیں۔ کمرے کو بہت اچھے طریقے سے سجایا گیا تھا۔ کینڈلز، تازہ پھولوں کی ٹوکریاں، گجرے اور ہلکا ہلکا میوزک۔ کمرے میں بھینی بھینی خوشبو بکھری ہوئی تھی۔ روح کو وجد میں لانے والے سارے سامان جمع تھے۔ وہ تھوڑا قریب ہوتی تو منصور کے خوش رنگ بدن کی خوشبو، مردانہ خوشبو کی بے پایاں کشش سب پر غالب آ جاتی۔ کھانا انتہائی لذیذ اور با افراط تھا۔ طرح طرح کی ڈشز۔ منصور کے ساتھ تصویریں بنا کر انسٹا گرام پر پوسٹ کیں۔ وہ تو لڑکا تھا ایسی کسی بات میں اس کی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ مہک اسے سب باتیں بتاتی رہی۔ اسے اچھا لگ رہا تھا کہ وہ سب مان رہا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ اسے شادی بیاہ کی تقریبات اور گھر گرہستی سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ بھی یہی چاہتی تھی کہ منصور کسی کام میں مداخلت نہ کرے۔ وہ تو یہ بھی دعا کرتی تھی کہ اس کے سارے بیٹے ہی پیدا ہوں۔ لڑکیاں ایسے کاموں میں مداخلت کرتی ہیں، زیادہ توجہ مانگتی ہیں اور وہ یہ نہیں چاہتی تھی۔ گھر میں اکیلی عورت ہونے کا خیال اسے بہت پسند تھا کہ سارے مرد صرف اس کے گرد ہی گھومتے دکھائی دیں۔
شادی میں وہی توجہ کا مرکز تھی۔ سارے مہمان جانے پہچانے تھے۔ بس دور تیسرے ٹیبل پر ایک جوان اداس خاتون بیٹھی تھی۔ کسی رسم میں کوئی دلچسپی نہیں۔ وہ اسے انسٹاگرام پر منصور کے ساتھ کئی تصویروں میں دیکھ چکی تھی۔
رات منصور سے اس خاتون کے بارے میں پوچھا۔
"چھوڑو اس کو۔ شادی کی پہلی رات ہی کس کا ذکر لے بیٹھی ہو"۔
"لیکن، وہ کون تھی؟"
"میری باس۔ وہی مجھے اس کمپنی میں لائی۔ میری پروموشن میں بھی اس کا ہاتھ تھا۔ آج کل مجھ سے ناراض ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کمپنی چھوڑ دوں"۔
یہ کہہ کر منصور نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ منہ اس کے کانوں کے قریب لا کر مدہم سی آواز میں پیار بھری باتیں کرنے لگا۔
مہک کے ذہن سے وہ عورت نہیں نکلی تھی۔ منصور کی آواز اسے مانس مکھیوں کی بھن بھن کی طرح محسوس ہو رہی تھی۔ وہ اسے بانہوں میں سمیٹ کر ہونٹ ہونٹوں کے قریب لایا۔
اس کے منہ سے گند آ رہی تھی، برساتی پانی کی، برساتی مینڈک کی۔
مہک نے منہ دوسری طرف پھیر لیا۔