1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. اب نواز شریف کے خلاف کیا گیم لگے گی؟

اب نواز شریف کے خلاف کیا گیم لگے گی؟

مجھے ہرگز خبر نہیں کہ کیسے، مگر ایک بات یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں اور وہ یہ کہ نئے آرمی چیف کی بروقت، باضابطہ اور بصد سکون ہوئی تعیناتی کے بعد نواز شریف کے خلاف جو گیم لگے گی وہ حیران کن حد تک کامیاب بھی ہوسکتی ہے۔ اس گیم کو آئندہ سال سینٹ کے انتخابات سے قبل فروری اور مارچ کے درمیانی ہفتوں کے درمیان اپنے انجام تک پہنچانا ہوگا۔ ایسا نہ ہوپایاتو سینٹ میں اپنی حیثیت کو مزید مستحکم کرنے کے بعد نواز شریف 2018ء کے انتخابات کا انتہائی اطمینان سے انتظار کریں گے۔ مذکورہ انتخابات میں چاہے سادہ اکثریت کے ساتھ ہی سہی، ان کی جیت یقینی نظر آئے گی۔ وہ پاکستان کے چوتھی بار منتخب ہوئے وزیر اعظم کا درجہ بھی حاصل کر پائیں گے۔ اپنے دوست اوردگان کی طرح ’’سلطان‘‘ نظر آتے حکمران۔

اپنی پھانسی کا انتظار کرتے ہوئے کال کوٹھری میں ذوالفقار علی بھٹو وقتاََ فوقتاََ کاغذ کے ٹکڑوں پر کچھ نہ کچھ لکھنے میں مصروف رہتے۔ جیل حکام کی نظروں سے بچاکر یہ نوٹس بیگم بھٹو یا بھٹو صاحب کے دانتوں کے معالج ڈاکٹر ظفر نیازی کے حوالے کردئیے جاتے۔ ان میں سے چند نوٹس کو ٹائپ رائٹر کے ذریعے مرتب کرنے کا مجھے بھی کبھی کبھار موقعہ ملا تھا۔ تمام نوٹس جب مکمل ہوگئے تو انہیں ایک کتاب کی صورت چھاپا گیا۔ "If I Am Assassinated" اس کتاب کا عنوان تھا۔ اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لینے کے جرم میں ہمارے ایک نامور صحافی عباس اطہر مرحوم نے لاہور کے شاہی قلعے میں بہت سختیاںبھی اپنی شاعرانہ روح پر جھیلیں۔ رہائی کے بعد جلاوطنی ان کا طویل برسوں تک مقدر بنی رہی۔

میرا ذہن جب کچھ ملکی یا بین الاقوامی معاملات کو سمجھنے میں قطعاََ ناکام رہے تو میں اکثر اس کتاب کو جو بھی صفحہ کھلتے ہی سامنے آئے وہاں سے پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ مجھے اپنے سوالات کے جواب نہ بھی ملیں تو بھٹو صاحب کی دور اندیشی اور قوتِ مشاہدہ، ذہن کے کئی بند باب کھولنے میں ہمیشہ مدد گار ثابت ہوتی ہے۔

اس کتاب میں بھٹو صاحب نے امریکی صدر نکسن کے واٹر گیٹ سکینڈل کے ذریعے زوال کا جائزہ بھی لیا ہے۔ ان کا اصرار تھا کہ عوامی جمہوریہ چین کے ساتھ تعلقات کی بنیاد کو مستحکم کرنے کے بعد نکسن نے ہرگز ’’تاریخ‘‘بنائی مگر ساتھ ہی اپنے ملک کی سیاسی،عسکری اور کاروباری اشرافیہ کو خوفزدہ بھی کردیا۔ یہ اشرافیہ اپنے مخصوص مفادات اور باہمی اختلافات بھلاکر اس نتیجے پر پہنچی کہ بطور فرد،صدر نکسن ریاستی اداروں کی مجموعی قوت سے بالاتر ہوگیا ہے۔ اسے کسی نہ کسی صورت اقتدار سے باہر نکالنا ہوگا۔ وگرنہ نکسن ایک مطلق العنان’’سلطان‘‘ بن جائے گا۔

2013ء کے انتخابات کے ذریعے پاکستان کا تیسری بار منتخب ہونے والے وزیر اعظم، نواز شریف نے بھی بھارت کے ساتھ تعلقات کو ایک نئی سمت دیتے ہوئے ’’تایخ‘‘ بنانے کا فیصلہ کیا تھا۔ افغانستان اور ایران کے ساتھ بھی وہ کوئی نیا بندوبست قائم کرنا چاہ رہے تھے۔’آزاد‘‘ میڈیا کی بدولت مگر انہیں نکیل ڈال دی گئی۔ 2014ء کے دھرنے نے انہیں بے کس ومجبور بناڈالا۔ ان کی خوش قسمتی مگر یہ بھی رہی کہ چین جو اپنا یار ہے اور جس پر جان بھی نثار ہے، عالمی منڈیوں تک رسائی کے لئے نئے راستوں کی تلاش میں تھا۔ اس کی ساری توجہ اس وقت اپنے مغربی صوبوں کو جدید دور میں دھکیلنا ہے۔ سنکیانگ ان صوبوں میں اپنے قدرتی وسائل کی بدولت سرِ فہرست شمار ہوتا ہے۔ اسے عالمی منڈیوں سے ملانے کا آسان ترین اور قریب ترین راستہ گلگت سے گوادر جانے والی سڑک ہے۔ CPEC ایک کلید ہے جسے قابل استعمال بنانے کے لئے شریف برادران کا ذہن پوری طرح یکسو ہے اور چین،پاکستان میں سیاسی خلفشار اور عدم استحکام کو برداشت کرنے کے لئے ہرگز تیار نہیں۔

2014ء کے دھرنے اور اس سال نومبر میں رچائے لاک ڈائون کی ناکامی نے نواز شریف کی کھوئی ہوئی طاقت بحال کردی ہے۔ بھارت کے ساتھ معاملات کو بہتر بنانا اس لئے بھی ممکن نہیں رہا کہ نریندر مودی،واجپائی کی طرح اپنا ذہن کھولنے کو ہرگز تیار نہیں۔ وہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کو سکھ پہنچانے کے کسی بھی سمجھوتے پر آمادہ نہیں۔ جنونیوں کی طرح اپنے ملک کو اس خطے کی بالادست قوت بنانے پر مصر ہے۔ نواز شریف کو ’’مودی کا یار‘‘ پکارتے ہوئے بھی ان کے مخالفین انہیں بھارتی بالادستی کے خواب کو تکمیل تک پہنچانے والے ’’آلہ کار‘‘ ثابت نہیں کرسکتے۔ایسا ممکن ہی نہیں۔ نواز شریف کی توجہ اب صرف چین کے بھرپور تعاون کے ساتھ افغانستان اور ایران کے ساتھ نئے علاقائی اتحاد بنانے پر مرکوز رہے گی۔

میڈیا میں رچائے تمامتر شور وغوغا کے باوجود حقیقت فی الوقت یہ بھی ہے کہ امریکہ کو چین کے گوادر تک پہنچنے میں ابھی تک کوئی خاص تکلیف محسوس نہیں ہورہی۔کئی حوالوں سے امریکی اشرافیہ بلکہ مطمئن ہے کہ چین افغانستان کے گھبیر مسائل سے لاتعلق رکھنے کے بجائے وہاں اب کسی نہ کسی نوعیت کے استحکام کو دیکھنے کی کاوشوں میں اپنا حصہ ڈالنے کو تیار ہے۔ ایران اور پاکستان کا چین کے ساتھ اشتراک اس علاقے میں امریکی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور بینکوں کو بھی سرمایہ کاری کے بے پناہ مواقع فراہم کرسکتا ہے۔ وہ اس کی راہ میں روڑے اٹکانے پر خود کو مجبور نہیں پاتے۔

بھارت کے ساتھ No War - No Peace کی فضا برقرار رکھتے ہوئے بھی پاکستان نے سیاسی اور معاشی استحکام کے چند متبادل راستے تلاش کرلئے ہیں۔ نواز شریف ان راستوں پر گامزن رہنے کے لئے بالکل تیار ہیں۔ انہیں اقتدار سے ہٹانے کو لہذا امریکہ اور اس کے اتحادی ہرگز بے چین نہیں ہوں گے۔

اصل دُکھ مقامی اشرافیہ کا ہے جو نواز شریف کو ’’سلطان‘‘ کی صورت مستحکم ہوتا برداشت نہیں کرپائے گی۔انہیں اس ’’سلطانی‘‘ کو روکنے کے لئے کوئی نہ کوئی گیم لگانا ہوگی۔ عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کے پاس اس ضمن میں ہرگز کوئی نئی گیم موجود نہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کے پاس اس حوالے سے انگریزی والی بے پناہ Space البتہ موجود ہے۔ اسے استعمال کرنے کے لئے مگر وقت درکار ہے اور نظر بظاہر بلاول کوبھی اپنی عمر کی وجہ سے کوئی جلدی نہیں۔’’نئی گیم‘‘ لگانے کے لئے ویسے بھی اشد ضروری ہوچکا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اندر سے ویسے ہی کوئی بغاوت ہو جو ان کے پہلے دور میں حامد ناصر چٹھہ کی صورت نظر آئی تھی۔ چٹھہ کی بغاوت نے غلام اسحاق خان کو ان کی پہلی حکومت برطرف کرنے کی جانب مائل کیا۔ حتمی نتائج البتہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو دوسری بار وزیر اعظم بنانے کا باعث ہوئے۔

اپنے ’’ہیوی مینڈیٹ‘‘ والے دوسرے دور میں جب ’’شرعی نظام‘‘ کے اطلاق کے ذریعے نواز شریف ’’امیر المومنین‘‘ بننے کی کوششوں میں مصروف نظر آئے تو خورشید قصوری جیسے لوگ ’’باغی‘‘ ہوگئے تھے۔ اس بغاوت نے کارگل کے زخم خوردہ پرویز مشرف کو بالآخر 12 اکتوبر 1999ء کرنے کی راہ دکھائی۔

نواز شریف کی ’’سلطانی‘‘ کو روکنے کے لئے اب پھر کسی حامد ناصر چٹھہ یا خورشید قصوری کی ضرورت ہے۔ فی الوقت ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا مگر انگریزی میں کہا جاتا ہے کہ You Never Know۔بغیر کسی وجہ سے انگریزی کا وہ محاورہ بھی یاد آگیا کہ Kingship Knows No Kinship یعنی بادشاہ کے کوئی بھائی،بیٹے یادیگر رشتے دار نہیں ہوا کرتے۔ یہ محاورہ بھی احتیاطاََ لکھ ڈالا ہے۔