1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. نصرت جاوید/
  4. المیہ فروشی کا سفاک انداز

المیہ فروشی کا سفاک انداز

موت اٹل ہے۔ اپنے پیاروں کا اس دُنیا سے رخصت ہوجانا مگر ہمیں اداس کردیتا ہے۔مرگِ ناگہانی اگر حادثوں کی صورت لوگوں کو اپنا نشانہ بنائے تو دل مزید پریشان ہوجاتا ہے۔

چترال سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہوئے جہاز کا حویلیاں کے قریب گرکرتباہ ہوجانا بھی ایسا ہی ایک واقعہ تھا۔ Ratings کے لئے کچھ بھی کرنے کو ہر وقت تیار ہمارے ہمہ وقت مستعد رہنے کے دعوے دار ٹی وی چینلوں نے لیکن اس واقعے کو انتہائی سفاکی سے رپورٹ کیا ہے۔ مجھے یہ جان کر البتہ کچھ اطمینان ہوا کہ سنسنی او چسکے کے عادی فرض کئے ہمارے عوام کی اکثریت نے رپورٹنگ کے اس انداز کے خلاف اپنی نفرت کا بھرپور انداز میں اظہار کیا ہے۔ صحافتی مشق کے مشکل ترین مراحل سے گزرے بغیر سکرینوں پر رونق لگانے کو بے چین تماشہ گر شاید اب دریافت کرہی لیں کہ دل ہلا دینے والے حادثات کی ”مارکیٹنگ“ نہیں ہوسکتی۔ ہمارا معاشرہ اپنی تمام تر خامیوں اور برائیوں کے باوجود ابھی بھی ایک انسان دوست معاشرہ ہے۔ صوفیائے کرام نے ہمارے دلوں میں رحم وگداز کے جو رویے پیدا کئے ہیں انہیں سفاکانہ انداز میں نظرانداز کردینا ممکن ہی نہیں۔ Ratings کے لئے سجائی دکانیں اگر اسی انداز میں اپنا دھندا جاری رکھیں گی تو بالآخر ”گاہکوں“ سے محروم ہوجائیں گی۔ دیوالیہ ان دکانوں کا مقدر ہے۔ اس سے مفر ممکن ہی نہیں۔

ٹیلی وژن جب ایجاد ہوا تو علم ابلاغ کے ایک ماہر نے برسوں کی تحقیق کے بعد اسے Idiot Box کا نام دیا تھا۔ لوگوں نے اس گروکا مذاق اُڑایا۔ پاکستان سمیت دنیا بھرمیں ٹیلی وژن سے وابستہ لوگوں نے بے تحاشہ دولت کمائی۔ شہرت کی انتہاﺅں کو پہنچے۔ پھر انٹرنیٹ آگیا اور بعدازاں سمارٹ فونز۔ ٹویٹر اور فیس بک متعارف ہوئے۔ سستے ترین موبائل فون کا حامل بھی اب اپنے تئیں ایک چلتا پھرتا نیوز نیٹ ورک ہے۔ اسے ٹی وی سکرینوں پر براجمان بقراطوں کے بھاشن سننے کی فرصت نہیں۔وہ بے بس ہوا آپ کے احمقانہ خیالات کو احترام سے سننے کے بجائے اپنے ذہن میں آئے خیالات کو دوسروں تک پہنچانے کو بے چین رہتا ہے۔ اسےTaken for Granted نہیں لیا جاسکتا۔

زیادہ سے زیادہ Eyeballs کی توجہ حاصل کرنا اب سکرینوں پر سجائے سودے کے ذریعے ممکن نہیں رہا۔ ابلاغ کا دھندا اب Interactive ہوچکا ہے۔سکرین پر جو بھی دکھایا جائے اس کا فیڈ بیک فوراََ آنا شروع ہوجاتا ہے۔ ریموٹ نے بھی فرد کو بٹن دباکر کسی کی آواز اور صورت کو ٹھکرادینے کی طاقت عطا کردی ہے۔ سنسنی اب بک نہیں پائے گی۔ اسے سفاکانہ انداز میں بیچنے کی کوشش کریں تو دیکھنے والے طیش میں آجاتے ہیں۔

ہمارے ہاں 24/7 چینلز کے متعارف ہونے کے چند ہی ماہ بعد اکتوبر 2005ء کا زلزلہ آگیا تھا۔ اس زلزلے کی تباہی کے مناظر دیکھتے ہوئے پاکستان کے ہر شہر سے کئی نیک دل خواتین وحضرات متاثرین کی دامے،درمے،سخنے مدد کے لئے اپنے گھروں سے باہر نکل کر متاثرہ شہروں کا رُخ کرنا شروع ہوگئے تھے۔ مجھے ایک صحافی کے طورپر بہت فخر محسوس ہوا کہ صحافت نے لوگوں کو متحرک کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔

پاکستان ٹیلی وژن کو ثقافت کا ترجمان بنانے والوں میں سے ایک بڑا نام۔آغاناصر مرحوم مگر ان دنوں بہت پریشان رہے۔ بارہا مجھے اس بات پر مجبور کرتے رہے کہ میں کسی طرح ٹی وی سکرینوں پر ”رونق“ لگانے والوں کو کسی فورم پر جمع کرسکوں۔ اس فورم کے توسط سے وہ سنسنی فروشوں کو چند باتیں سمجھانا چاہ رہے تھے۔ مجھے دُکھ ہے کہ میں بروقت ان کی معاونت کے لئے کچھ بھی نہ کرپایا۔

آغا صاحب بہت دُکھی دل کے ساتھ مجھے سمجھاتے کے ٹیلی وژن ایک Soft Medium ہے۔ اسے کسی خاندان کے تمام افراد ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتے ہیں۔ ٹیلی وژن کی یہ پہنچ اسے ایک حوالے سے گھروں کا رکن بنادیتی ہے۔ ایک گھر کارکن ہوتے ہوئے ”بری خبر“ سنانے کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ آغا صاحب بضد رہے کہ ٹی وی صحافی ان آداب سے غافل رہے تو ہمارے عوام کی اکثریت ”بری خبروں“ کے تابڑتوڑ حملوں سے اُکتا کر انسانی المیوں کے بارے میں بے حس ہوجائے گی۔ ان کی زندگی میں ہی زلزلے کے بعد 2011 کا سیلاب آیا۔ ٹی وی والے اسے اس انداز میں لیکن ”بیچ“ نہیں پائے جیسے زلزلے کو مارکیٹ کیا گیا تھا۔

قدرتی آفات کی رپورٹنگ دلوں کو ہلانے کی بجائے ان میں اُکتاہٹ اور بیزاری پیدا کرنا شروع ہوگئی۔ ٹی وی صحافت سے وابستہ مجھ ایسے بے ہنر اس اُکتاہٹ کو سمجھ ہی نہیں پائے۔

چترال سے اُڑاطیارہ حویلیاں میں گرکر پاش پاش ہوا تو ٹی وی والوں میں ”سب سے پہلے“ کی جنگ شروع ہوگئی۔ کئی سکرینوں نے خود کو Exclusive ثابت کرنے کے لئے جو تصویر کئی گھنٹوں تک پسِ منظر میں دکھائی وہ درحقیقت وہ ہیلی کاپٹر تھا جو ایئربلیو کے ایک طیارے کے اسلام آباد کی مارگلہ پہاڑی سے ٹکراکر گرنے کے بعد متاثرین کی لاشوں کو ڈھونڈرہا تھا۔ مارگلہ کی چوٹیاں اور کھائیاں اس حادثے کے وقت سرسبزوشاداب تھیں۔ حویلیاں کی ویران پہاڑیاں خشک سالی کے اس موسم میں سبزے سے قطعاََ محروم ہیں۔ اکثر چینل مگر مارگلہ حادثے کے دوران لی گئی اس کلپ کو اپنی سکرینوں پر دکھاتے ہوئے جائے حادثہ پر سب سے پہلے پہنچنے کے دعوے دار بنے رہے۔

24/7 صحافت کا پہلا فرض لوگوں کو یہ بتانا تھا کہ اپنے عزیزوں کے بارے میں کوئی ٹھوس معلومات حاصل کرنے کے لئے کونسے دفاتر اور ٹیلی فون نمبروں سے رابطہ کیا جائے۔ یہ سمجھانا بھی ضروری تھا کہ حویلیاں کی کھائیوں میں بکھرے ہلاکت شدگان کی تلاش اندھیرے کی وجہ سے بہت وقت لے گی۔ یہ معلوم کرنا ضروری تھا کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں میسر وسائل کو اس تلاش کے لئے استعمال کرنے میں کوتاہی کی مرتکب تو نہیں ہورہیں۔

یہ سب کرنے کی بجائے ہم نے ہوا بازی کے شعبے سے کسی نہ کسی طرح وابستہ رہے افراد کو سکرینوں پر بٹھا کر حادثے کی وجوہات بیان کرنا شروع کردیں۔ ان ”وجوہات “ کے بیان کے بعد ذمہ داروں کا تعین لازمی ہوگیا۔ ان کے لئے عبرت ناک سزاﺅں کے مطالبے بھی۔

دریں اثناءجائے حادثہ کے قریب کسی نہ کسی طرح موجود رپورٹروںکے Beepers آنا شروع ہوگئے۔ انہوں نے ”حلوہ ہوئی“ لاشوں کا تذکرہ کیا۔ان ظالموں کے سفاک الفاظ کو ”بامعنی“ بنانے کے لئے Graphics استعمال ہوئے۔ ہم میں سے اکثر نے ان کے ذریعے ناظرین کو ”سمجھا“دیا کہ یہ حادثہ کیسے ہوا۔ ایک الگ بات ہے کہ جو Graphics ہمیں دیکھنے کو ملیں انہوں نے کسی وڈیو گیم کے تاثرات پیدا کئے۔ المیہ فروشی کا یہ سفاک انداز ناظرین کی اکثریت کو ہرگز پسند نہیں آیا۔ میری خواہش ہے تو صرف اتنی کہ ہم لوگوں کے دلوں میں ہماری رپورٹنگ کی وجہ سے پیدا ہوئے اشتعال سے کچھ سبق حاصل کرسکیں۔