ہارٹ آف ایشیاء کانفرنس میں شرکت کے دوران افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف خوب زہراُگلا ہے۔ میری ناقص رائے میں یہ ایک مایوس سیاستدان کا اپنی کوتاہیوں،کمزوری اور ناکامی کو تسلیم کرنے کے بجائے محض پاکستان کو ان کا ذمہ دار ٹھہرانے کی سفارتی حوالوں سے ایک احمقانہ کوشش تھی۔ اس کی بد کلامی کونظرانداز کرنا ہی ایک مناسب رویہ تھا۔
ہماری ٹی وی سکرینوں پر لیکن سفارت کاری کی تمام تر باریکیاں اور پیچیدگیاں سمجھنے والے بقراطوں کا قبضہ ہے۔ شام ڈھلتے ہی وہ سروں پر خضاب کی تہیں جمائے گہرے رنگ کے سوٹوں کے ساتھ رنگین ٹائیاں پہن کر رونما ہوجاتے ہیں وہ اپنے تئیں ہماری قومی حمیت وغیرت کے نگہبان بھی ہیں انہیں ثابت کرنا ہوتا ہے کہ سیاست دانوں کو ’’قومی مفادات‘‘ کی بالکل خبر نہیں وہ مال کمانے میں مصروف رہتے ہیں خارجہ معاملات پر غور نہیں کرتے نواز شریف کی تیسری حکومت اس ضمن میں اتنی غافل ہے کہ ابھی تک ایک کل وقتی وزیر خارجہ بھی مقرر نہیں کر پائی ایسا وزیر خارجہ جو پاکستان کے خلاف بدزبانی کرنے والوں کا منہ توڑ جواب دے سکے۔ میرے لاہور کے ایک محلے کی ان لڑاکو خواتین کی مانند جو مردوں کے اپنے کاموں پر روانہ ہوتے ہی اپنے گھر کے چوباروں میں کھڑی ہوکر مخالفین کو دشنام طرازی کے ذریعے للکارنا شروع ہوجاتی ہیں۔
میں اس کالم میں ہرگز اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں اپنا وقت ضائع کرنے کو تیار نہیں کہ نواز شریف ابھی تک ایک کل وقتی وزیر خارجہ کیوں نہیں ڈھونڈپائے۔ میری دانست میں یہ سوال اپنی نوعیت میں قطعاََ فروعی ہے کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی اس کی سیاسی حقیقتوں کی ترجمان ہوا کرتی ہے اور افغانستان کئی برسوں سے سیاست دانوں کے لئے ایک No Go Area بن چکا ہے۔
ذوالفقار علی بھٹو بھی خارجہ امور کا ایک کل وقتی وزیر لگانے کو کبھی تیار نہیں ہوئے تھے بہت عرصہ انتظار کے بعد انہوں نے وزارت خارجہ کے ایک ریٹائرڈ افسر ،عزیز احمد،کو سینٹ کا رکن بنوایا اور انہیں وزیر مملکت تعینات کردیا اپنی اس حیثیت میں عزیز صاحب بنیادی طور پر وزارت خارجہ سے متعلق بیوروکریٹک معاملات نبٹایاکرتے اسلام آباد میں مقیم سفارت کاروں سے رابطے استوار کرتے اور غیر ملکی کانفرنسوں میں پاکستان کی نمائندگی کرتے افغانستان کے ضمن میں بھٹو صاحب نے جو پالیسی بنائی اس پر عملدرآمد کے لئے آئی ایس آئی کے چند افسران پر انحصار کیا گیا تھا۔ مشہور زمانہ کرنل امام نے افغان مجاہدین کی تربیت کا آغاز ان ہی کی حکومت کے دوران کیا تھا میجر جنرل نصیر اللہ بابر بطور آئی جی ایف سی اور بعدازاں ان دنوں کے گورنر سرحد کی حیثیت میں قبائلی علاقہ جات کے معاملات کے نگران ہوا کرتے تھے گل بدن حکمت یار اور برہان الدین ربانی وغیرہ کے ساتھ ابتدائی رابطے بھی انہوں نے قائم کئے تھے اس ضمن میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد ان کے اہم ترین سہولت کارہوا کرتے تھے وزارتِ خارجہ کا اس قصے سے کوئی تعلق ہرگز قائم نہیں ہوا تھا۔
بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء نے ان ہی کی متعارف کردہ رروایت کو برقرار رکھا۔ 1978ء میں افغانستان’’ثور انقلاب‘‘ کی بدولت ’’کمیونسٹ‘‘ ہوا تو ضیاء الحق نے یہ دریافت کرنے میں ذرا دیر نہ لگائی کہ بالآخر سوویت یونین کو اپنے ’’اتحادی‘‘ بچانے کے لئے افغانستان میں اپنی فوجیں بھیجنا ہوں گی۔ سوویت افواج وہاں آئیں تو ایران میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ سے گھبرایا امریکہ پریشان ہوگیا فیصلہ ہوا کہ نام نہاد ’’فری ورلڈ‘‘ یکسو ہوکر افغانستان کو ’’اسلامی جہاد‘‘ کے ذریعے ’’آزاد‘‘ کروائے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے بعد جنرل ضیاء خود کو عالمی دُنیا میں تنہاء محسوس کررہے تھے موصوف کے لئے افغانستان میں سوویت افواج کی آمد بہت کارآمد ثابت ہوئی اپنے ملک کے سیاسی کارکنوں کو برسرعام کوڑے لگوانے والا یہ آمر امریکہ اور اس کے حواریوں کا چہیتا بن گیا۔ ضیاء الحق کی محبت میں جمہوریت اور انسانی حقوق کی چمپیئن بنی ’’فری ورلڈ‘‘ کو پاکستان میں موجود سیاسی جبر اور روزافزاں پھیلتی مذہبی انتہاء پسندی کے بارے میں ہرگز کوئی فکر مندی محسوس نہ ہوئی۔
پاکستان میں سول اور جمہوری ادارے تو ویسے ہی کمزور ہیں۔ امریکہ کی وزارتِ خارجہ کا بھی لیکن افغانستان کے معاملات میں کچھ خاص دخل و اثر موجود نہیں تھا یہ ملک CIA کو Out Source کردیا گیا جو براہِ راست ISI سے رابطوں کے ذریعے ’’افغان جہاد‘‘ کی پشت پناہی میں مصروف رہی۔ سوویت یونین بالآخر زچ ہوکر افغانستان سے رخصت ہونے پر مجبور ہوا تو اسے امن مذاکرات کے ذریعے اپنے لئے Safe Exit کی ضرورت محسوس ہوئی پاکستان میں اس وقت غیر جماعتی انتخابات کے ذریعے محمد خان جونیجو کو وزیر اعظم بنوادیا گیا تھا۔ وزیراعظم کا منصب سنبھالنے کے بعد انہوں نے ’’خود مختار‘‘ہونا چاہا جنرل ضیاء انہیں خودمختاری دینے کو تیار نہ تھے۔ اس کے باوجود جونیجو مرحوم نے اپنے وزیر مملکت برائے امور خارجہ، مرحوم زین نورانی کے ذریعے جنیوا معاہدے کے لئے طویل مذاکرات کئے۔ ان مذاکرات کے نتیجے میں سوویت افواج کو افغانستان سے نکلنے کا راستہ مل گیا۔ افغانستان کو مگر امن نصیب نہیں ہوا۔ ضیاء الحق نے بھی بالآخر جونیجو حکومت کو گھر بھیج دیا۔
1988ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو اس ملک کی وزیر اعظم منتخب ہوئیں تو افغان پالیسی بنانے کی اجازت انہیں بھی نہیں ملی تھی ایک ’’افغان سیل‘‘ تھا۔ اس کے اجلاس وزارتِ خارجہ میں نہیں آئی ایس آئی کے دفاتر میں ہوا کرتے۔ پاکستان میں مقیم امریکی سفیر اور سی آئی اے کا نمائندہ اس سیل کے اجلاسوں میں شرکت کرتے سول حکومت کی نمائندگی وزیر اعظم اور ان کے خصوصی معاون جنرل نصیر اللہ بابر کے ذریعے ہوا کرتی ہماری وزارتِ خارجہ کا اس معاملے سے کوئی تعلق کبھی بھی قائم نہ ہوپایا۔
اسی’’افغان سیل‘‘ میں 1989ء کے دوران فیصلہ ہوا تھا کہ جلال آباد کو’’آزاد‘‘ کرواکر وہاں مجاہدین کی عبوری حکومت بٹھادی جائے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے مشیر دفاع ’’جنرل امتیاز‘‘ جو تاحیات ذوالفقار علی بھٹو کے وفادار رہے اس بات پر مصر تھے کہ جلال آباد کو آزاد نہیں کروایا جاسکے گا۔ ان کی بات مگر سنی نہ گئی۔ جلال آباد آپریشن ہوا اور اپنے مقاصد کے حصول میں قطعاََ ناکام رہا۔ مرحوم جنرل حمید گل کو بطور ڈی جی آئی ایس آئی اس ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراکر ملتان کا کور کمانڈر تعینات کردیا گیا۔ افغانستان میں شورش اور ابتری مگر اپنی جگہ برقرار رہی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کے بعد نواز شریف کی پہلی حکومت آئی تو مرحوم صدیق کانجو وزیر مملکت برائے امور خارجہ بنائے گئے۔ وہ بھی افغان معاملات کے بارے میں قطعی بے خبر رہے، ازبک ملیشیاء کے کمانڈر رشید دوستم نے ڈاکٹر نجیب کی حکومت کے خلاف مجاہدین کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا تو آئی ایس آئی کے نئے ڈی جی جنرل ناصر نے نئی صورتِ حال کو سنبھالا صبغت اللہ مجددی کی قیادت میں ایک عبوری حکومت کا بل میں بٹھانے کا فیصلہ سعودی عرب میں ہوئے مذاکرات کے ذریعے ہوا۔
ان مذاکرات کی بدولت صبغت اللہ مجددی کو افغانستان کے صدارتی محل میں بٹھانے کے لئے وزیر اعظم نواز شریف اور اس وقت کے آرمی چیف ایک طیارے میں بیٹھ کر کابل گئے تھے۔ مجھے بھی اس طیارے میں ایک نشست ملی تھی صبغت اللہ مجددی کو صدارتی محل میں بٹھا کر ہم کابل ایئرپورٹ سے اسلام آباد کے لئے روانہ ہونے لگے تو ہمارا جہاز کئی گھنٹوں تک پرواز نہ کرپایا گل بدن حکمت یار اور کئی مجاہدین دھڑے نئے انتظام کے بارے میں مطمئن نہیں تھے۔ انہوں نے کابل ایئرپورٹ پر اپنی ناراضی کے اظہار کے لئے میزائل برسانا شروع کردئیے۔ ہمارا جہاز کئی گھنٹے Clearance کے انتظار میں کھڑا رہا۔
اس کے بعد پاکستان اور افغانستان میں کئی حکومتیں آئیں اور فارغ ہوئی ہیں معاملات مگر جوں کے توں ہیں۔ افغانستان کی شورش اور بدامنی اور پاکستان کے ساتھ اس کے کشیدہ تعلقات کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ اس تاریخ کا پاکستان میں ایک کل وقتی وزیر خارجہ نہ ہونے سے ہرگز کوئی تعلق نہیں ۔ ٹی وی سکرینوں پر براجمان بقراط مگر پیچیدہ وجوہات کو بیان نہیں کرتے شاید اس ضمن میں انہیں خود بھی کوئی خاص خبر نہیں۔ ٹی وی پر اپنی صورت دکھاکر یاواگوئی کرنا ہوتی ہے اس سیاپے کی بدولت چند لوگوں کی بھد اُڑائی جا سکتی ہے مگر افغانستان کے بارے میں کسی مناسب حکمت عملی کی دریافت ہرگز ممکن نہیں۔