گزشتہ بدھ کے روز کسی وقت پاکستان کے وزیراعظم نے نومنتخب امریکی صدر کو فون کیا۔ موصوف کی حیران کن جیت کے کئی دن گزر جانے کے بعد یہ فون کیوں اور کیسے ممکن ہوا۔ اس سوال کا جواب میرے کسی رپورٹر دوست نے ڈھونڈنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ صحافت ان دنوں حقائق کی تلا ش میں ویسے بھی وقت ضائع نہیں کرتی۔ اندھی نفرتوں اورعقیدتوں میں بٹے ہمارے لوگوں کے دلوں میں موجود تعصبات کو بڑھاوا دینے کے لئے دلائل گھڑتی ہے۔ نواز شریف کی اندھی نفرت میں مبتلا صحافیوں کو اس فون کی بدولت ایک اور قصہ مل گیا جو ثابت کرتا ہے کہ ”حمیت نام تھا جس کا....“شریف خاندان کے گھر سے رخصت ہوچکی ہے۔
ڈونلڈٹرمپ اپنی انتخابی مہم کے دوران مسلمانوں اور پاکستان کو تواتر کے ساتھ نفرت و تضحیک کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم سے غالباًََ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ وہ امریکہ کے نومنتخب صدر سے فون مل جانے کے بعد اسے ”بندے کا پُتر“بننے کا مشورہ دیتے۔ اسے سمجھاتے کہ مسلمانوں کا دہشت گردی سے ہر گز کوئی تعلق نہیں۔ روس کو افغانستان میں گھیر کر ذلیل و رسوا کرنے کے لئے امریکہ ہی نے”مجاہدین“ بنائے تھے۔ انہیں جدید ترین اسلحہ فراہم کیا۔ اسے چلانے کی تربیت دی روس زچ ہوکر وہاں سے چلا گیا تو امریکہ نے ان مجاہدین کو فراموش کردیا۔ اپنے نظرانداز ہونے پر وہ ناراض ہوگئے۔
امریکہ واقعتاً امن وسلامتی کا خواہاں ہے تو اسے فلسطین اور کشمیر جیسے دیرینہ مسائل کا حل ڈھونڈنے میں اپنا کردارادا کرنا چاہیے۔ افغانستان میں ”اسلامی حکومت“ کا قیام بھی اس کی ذمہ داری ہے یہ سب ہوجائے تو امریکہ محفوظ ہوجائے گا اسے تارکین وطن کو روکنے کے لئے دیواریں کھڑی کرنے کی ضرورت نہیں رہے گی وغیرہ وغیرہ۔
نواز شریف صاحب نے غالباًَ یہ سب باتیں ڈونلڈٹرمپ کے گوش گزار نہیں کیں ہمیں بلکہ خبر ہی نہیں کہ اسے مبارک باد دینے کے لئے پاکستان کے وزیراعظم نے کونسے الفاظ ادا کئے تھے۔ ڈونلڈٹرمپ نے البتہ جو کچھ کہا اسے حرف بحرف ایک سرکاری پریس ریلیز کے ذریعے عیاں کردیا گیا ہے ٹرمپ نے پاکستان اور اس کے لوگوں کو زبردست کہا ان کی بے پناہ تعریف کی۔ ساتھ ہی ساتھ مگر اس نے نواز شریف کو بھی ایک ”باعزت شخص“ کہہ ڈالا اور اس خواہش کا اظہار بھی کہ وہ ان کے ساتھ گہرے اور طویل ذاتی رشتے استوار کرنا چاہے گا۔
ٹرمپ نے پاکستان اور اس کے شہریوں کی جن حیران کن الفاظ میں تعریف کی صرف وہ الفاظ دنیا کے سامنے لائے جاتے تو شاید ہم اتنے ناراض نہ ہوتے۔ غصہ ہمیں یہ سوچ کر ضرورت سے زیادہ اس لئے آرہا ہے کہ پانامہ لیکس میں گھرے نواز شریف کو اس نے ”باعزت شخص“کہا۔ ان کے ساتھ ذاتی تعلقات بڑھانے کی خواہش درحقیقت امریکی نو منتخب صدر کی طرف سے پاکستانیوں کو یہ پیغام تھا کہ نواز شریف ”ہمارا آدمی“ ہے اسے تنگ نہ کیا جائے۔
نواز شریف کی تعریف سے جلے ہم اپنی بات مگر سادہ لفظوں میں براہِ راست نہیں کہہ رہے نظر بظاہر دُکھ ہمیں اس بات کا ہے کہ ٹرمپ کے ساتھ ہوئی ”ذاتی گفتگو“کو نواز شریف نے پبلک کردیا۔ ایسا کرنا سفارتی آداب کی سنگین خلاف ورزی تھی۔ امریکی وزارتِ خارجہ کے لوگ اس خلاف ورزی پر بہت ناراض ہوئے ہیں ان میں سے چند ریٹائرڈ لوگوں نے CNN جیسے ٹیلی وژن پر آکر ہمارے رویے کو غیر مناسب (In Appropriate) کہا ہماری بے عزتی ہوگئی۔
نواز شریف کی اندھی نفرت میں مبتلا لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ امریکی میڈیا کے لئے اصل مسئلہ پاکستان کے وزیراعظم کے ساتھ ہوئی گفتگو اور اس کا ہوبہو منظر عام پر آنا نہیں بلکہ ڈونلڈٹرمپ ہے۔ موصوف نے کئی دہائیوں کی روایات کے بدولت مسلم ٹھہرے اصولوں کو روندتے ہوئے اپنی انتخابی مہم چلائی تھی اپنے مخالفین اور خاص کر خواتین کے خلاف بازاری زبان استعمال کی۔ اس کے باوجود وہ حیران کن حد تک کامیاب رہا تو امید یہ باندھی جارہی تھی کہ وہ Presidential رویہ اختیار کرنا شروع کردے گا۔ ایسا مگر ہو نہیں رہا۔
ایسا ہونا میری ناقص رائے میں ممکن ہی نہیں۔ ڈونلڈٹرمپ کی کامیابی کا اصل راز ہی سفید فام امریکی لوگوں کی اکثریت کے دلوں میں کئی برسوں سے جمع ہوئے غصے کا اظہار ہے یہ غصہ امریکی سیاست اور طرزِ حکومت کے بندھے ٹکے اصولوں اور سانچوں کے خلاف ہے System یعنی نظام کو بوسیدہ اور ناکارہ ٹھہراکر اس سے جان چھڑانے کی خواہش ٹرمپ کے حق میں ووٹ دینے کا اصل سبب ہوئی اپنے منہ پھٹ اور Anti System رویے کی بدولت کامیاب ہوجانے کے بعد ٹرمپ اس رویے کو تبدیل کرنے پر ہرگز مجبور نہیں ہوگا۔
غیر ملکی سربراہان سے رابطوں کے بھی چند بندھے ٹکے اصول ہیں روایتی طورپر منتخب ہوجانے کے بعد اپنے عہدے کا حلف لینے کے درمیان جو 10 ہفتے ہوتے ہیں، اس دوران ایک نو منتخب صدر مسلسل اپنے ملک کی وزارتِ خارجہ سے رابطے میں بھی رہتا ہے کوئی غیر ملکی سربراہ اس سے ملنے آئے تو وہ اس وزارت کے کسی افسر کو اس ملاقات سے قبل بلاکر بریفنگ لیتا ہے۔ملاقات کے دوران ہوئی گفتگو کو ریکارڈ کا حصہ بنانے کے لئے وزارتِ خارجہ کا کوئی افسر نوٹس بھی لیتا ہے۔ یہی رویہ غیر ملکی سربراہان کے ساتھ ٹیلی فون پر ہوئی گفتگو کے لئے بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔
امریکی وزارتِ خارجہ نے بارہا اپنے نومنتخب صدر سے رابطہ کیا ہے۔ اسے اپنی موجودگی کا مہذب ومودب انداز میں احساس دلایا جاتا ہے ٹرمپ مگر ان کی خدمات حاصل کرنے پر آمادہ نہیں ہورہا۔ جاپان جیسے اہم ملک کے اعظم سے ملا تو اس ملاقات کے دوران صرف اس کی بیٹی موجود تھی، جو اب اس کا کاروبار بھی چلائے گی۔ برطانوی اعظم سے گفتگو کے بعد ٹرمپ نے بڑی ڈھٹائی سے ایک ٹویٹ لکھا اور یہ تجویز دی کہ برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے کے لئے ریفرنڈم کی مہم چلانے والے Nigel Farage کو اگر امریکہ میں برطانیہ کا سفیر مقرر کردیا جائے تو امریکہ اوربرطانیہ کے باہمی تعلقات مضبوط تر ہوجائیں گے۔
ترکی کے صدر سے بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے خاص طورپر اس ترک سرمایہ دار کی تعریف کی جو استنبول اور ترکی کے چند دیگر شہروں میں ٹرمپ کے ساتھ شراکت داری کے ذریعے مہنگے ہوٹل اور پلازے بنارہا ہے۔
فلپائن میں ان دنوں جو شخص صدر منتخب ہوا ہے وہ ”سستے اور فوری انصاف“ کے نام پر ماورائے عدالت ہلاکتوں کے ذریعے اپنے ملک کو جرائم سے پاک کرنا چاہ رہا ہے۔ صدر اوبامہ کو اس کے رویے نے انسانی حقوق کی یاد دلادی تھی۔فلپائن کا صدر ناراض ہوگیا۔ اس نے اوبامہ کو ایک فحش گالی دی اور یہ دھمکی بھی کہ وہ اپنے ملک سے امریکی افواج کو دئیے اڈے خالی کرواکر چین کے ساتھ دوستی بڑھائے گا۔ ٹرمپ کے منتخب ہوجانے کے بعد مگر اسی صدر نے اُس شخص کو امریکہ کے لئے ”خصوصی سفیر“ مقرر کردیا جو منیلا کے سب سے بڑے ہوٹل کی ملکیت میں ٹرمپ کا شراکت دار ہے۔
اپنے انتخاب کے فوراََ بعد ٹرمپ جن بھارتیوں سے مبارک باد وصول کرنے کو ملا وہ ممبئی اور پونہ میں سینکڑوں فلیٹس پر مشتمل رہائشی پلازے بنانا چاہ رہے ہیں۔ اس منصوبے کا ٹرمپ ایک اہم ترین حصہ دار ہے۔ ٹرمپ کے ان سب روابط نے امریکی میڈیا کو Conflict of Interests کی یاددلادی ہے۔ سوال اُٹھ رہے ہیں کہ وائٹ ہاﺅس پہنچ جانے کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ امریکی خارجہ پالیسی”قومی مفاد“ میں چلائے گا یا اپنے عہدے کو مختلف ممالک میں صرف اپنا کاروبار بڑھانے کے لئے استعمال کرے گا۔
حیران کن حقیقت یہ بھی ہے کہ امریکی میڈیا میں برپا اس تمام ترشوروغوغا کے باوجود ٹرمپ کو ووٹ دینے والے بالکل پشیمان نہیں ہورہے۔ ان کی ٹرمپ سے عقیدت ومحبت ابھی تک غیر متزلزل ہے ہم مگر خوش نصیب ہیں کہ بدستور”قومی حمیت“ کی فکر میں مبتلا ہیں اور اس بارے میں انتہائی پریشان بھی کہ تیسری بار اعظم منتخب ہوجانے کے باوجود نواز شریف ابھی تک آدابِ سفارت کاری کیوں نہیں سیکھ پائے ہیں۔