’’بدن بولی‘‘شاید Body Language کا مناسب ترین ترجمہ ہے۔ اس لفظ کے مناسب ترجمے کی تلاش سے کہیں زیادہ اہم میری نظر میں لیکن یہ حقیقت ہے کہ لوگ اپنے جذبات کے اظہار کے لئے الفاظ سے کہیں زیادہ اپنے بدن اور اس کے مختلف اعضاء کو استعمال کرتے ہیں۔
ماہرینِ نفسیات سے کئی دہائیاں قبل ’’بدن بولی‘‘ کو جسے Non Verbal Communication بھی کہا جاتا ہے، روسی زبان کے ایک عظیم ناول نگار ٹالسٹائی نے دریافت کیا تھا۔اس کے ناولوں کے اہم ترین کردار جذبات سے مغلوب ہوئے مراحل میں اپنے ہاتھوں یا آنکھ کو ایک مخصوص انداز میں استعمال کرتے ۔صرف لفظوں کے ذریعے دوسروں کے خیالات وجذبات سے آگاہ ہونے کے خواہاں افراد ان کے انداز کو پڑھ نہ پاتے۔ رشتوں میں پیش آتی الجھنیں مزید گھمبیر ہوجاتیں۔ ’’سینہ شمشیر سے باہر ہے دم شمشیر کا‘‘جیسے مصرعوں کے ذریعے ہمارے غالبؔ نے بھی بدن بولی کے حوالے سے اپنی مہارت کا اکثر اظہار کیا ہے۔
’’بدن بولی‘‘ایک مشکل موضوع ہے۔ اسے پڑھنے کے لئے غیر معمولی قوتِ مشاہدہ کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔24/7 چینل سے وابستہ ہر رپورٹر مگر خود کو اس کا ماہر سمجھتا ہے۔ اینکر حضرات بھی سکرین پر رونق لگانے اور خود کو خبروں کی ’’گہرائی‘‘ میں جاتا ثابت کرنے کے لئے اس کا ذکر فرمایا کرتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ سوائے اپنی جہالت کے اور کوئی چیز عیاں نہیں کرتے۔
منگل کی صبح جنرل راحیل شریف نے ایک باوقار تقریب میں پاک آرمی کی کمان جنرل قمر جاوید باجوہ کے سپرد کی۔ اپنے گھروں میں بیٹھ کر ٹی وی کے ذریعے کئی لوگوں نے اس تقریب کو بہت شوق سے دیکھا اور اپنے تئیں یہ طے کرنے میں مصروف رہے کہ نیا چیف اپنے پیشرو سے کتنا مختلف ہوگا۔ تقریب میں موجود رپورٹروں کی اکثریت کو اگرچہ ’’مزا‘‘ نہیں آیا۔ ان میں سے کم از کم چار نوجوانوں کو میں نے الگ الگ ملاقاتوں میں ٹٹولنے کی کوشش کی تو ان سب نے اصرار کیا کہ جنرل باجوہ اپنی بدن بولی میں ’’دبنگ‘‘ نظر نہیں آئے۔ نئے آرمی چیف کی اپنی تقریب رونمائی میں ’’دبنگ‘‘نظر نہ آنے نے انہیں بظاہر کافی مایوس بھی کیا۔
مجھے ان کی مایوسی سے گھبراہٹ ہوئی۔ ایک بار پھر یہ جان کر شدید دُکھ ہوا کہ اپنے حالات سے اُکتائے ہمارے عوام کی اکثریت کسی ڈنڈا بردار دیدہ ور کی منتظر ہے۔ عدم تحفظ کے مارے ان افراد کی مانند جو ساری عمر کسی Father Figure کی تلاش میں صرف کردیتے ہیں۔
کسی سخت گیر والد جیسے دیدہ ور کا انتظار قابلِ رحم نہیں قابل نفریں ہے۔یہ انتظار ثابت کرتا ہے کہ اپنی انفرادی حیثیت میں لوگوں کے پاس اپنے مسائل کا کوئی حل موجود نہیں۔ اس حل کو خلوص نیت سے ڈھونڈنے اور لگن کے ساتھ قابل عمل بنانے کے ارادے بھی قطعاََ مفقود ہیں۔ خواہش ہے تو صرف اتنی کہ کوئی آئے اور سب کچھ ٹھیک کردے۔ ہمیں خوشی اور سکون تک پہنچانے والی راہ پر چلائے۔
ایک سخت گیر والد جیسے دیدہ ور کے انتظار ہی نے یورپ کو ایک زمانے میں ہٹلر اور مسولینی جیسے رہ نما فراہم کئے تھے۔ ان کی وجہ سے جو تباہی آئی اس نے آنے والی نسلوں کو کئی دہائیوں تک دیدہ وروں سے احتیاط برتنے پر مجبور کردیا۔ وقت ایک بار پھر مگر ہیجانی کیفیات میں لوٹ آیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے فروغ نے خلقِ خدا کی اکثریت کو یہ احساس دلایا ہے کہ دنیا میں چند لوگ بہت ہی خوش حال ہوتے ہیں۔ ان کے محلات ایسے گھر ہوتے ہیں۔ وہ جدید طرز کے برانڈڈ کپڑے پہنتے ہیں۔ اپنے ذاتی طیاروں پر سفر کرتے اور چھٹیاں منانے دنیا کے خوب صورت ترین جزیروں میں پہنچ کر Relax کرتے ہیں۔ بہت مہارت سے بنائے اشتہارات نے کئی اشیائے صرف کو زندگی کی بنیادی ضروریات کی صورت دے کر ہمارے دلوں میں ان کی اشتہا بڑھائی ہے۔ہوس کے عادی بنائے دلوں کو مگر قرار نہیں آتا۔ محرومی کا احساس بڑھتا چلاجاتا ہے۔
ظلم مگر یہ ہوا ہے کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے افراد بھی اب اپنے لئے مناسب روزگار نہیں ڈھونڈ پاتے۔ جدید ٹیکنالوجی نے مزدور کی ضرورت اگر ختم نہیں کی تو بہت کم ضرور کردی ہے۔ کپاس پاکستان ایسے ملکوں میں بنتی ہے۔ اس سے دھاگہ بھی یہاں کی لومز میں بنایا جاتا ہے۔کپڑے کو لباس کی صورت دینے کے لئے مگر بنگلہ دیش میں لگے کارخانوں میں نسبتاََ سستی اجرت پر کام کرنے والی عورتوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔
iPhone کو ایجاد امریکہ نے کیا تھا۔ اسے کمیونی کیشن کا جدید ترین ذریعہ بنانے کے تمام تر پروگرام بھی امریکہ میں دریافت ہوئے۔ اس فون کو دُنیا بھر کی مارکیٹوں میں پہنچانے کے لئے تیار مگر چین جیسے ملکوں میں کیا جاتا ہے۔
سستے مزدور کی تلاش نے امریکی سرمایہ داروں کو اپنے ملک کے بجائے چین جیسے ممالک میں سرمایہ کاری پر مجبور کیا۔ بذاتِ خود امریکہ میں مشقت والے چھوٹے موٹے کاموں کے لئے سستی اجرت پر کام کرنے والے تارکینِ وطن کو ترجیح دی گئی۔ غیر ملکوں میں ہوئی سرمایہ کاری نے امریکہ میں Rust States یعنی ایسے علاقے بنادئیے جہاں کسی زمانے میں 24گھنٹے کام کرنے والی فیکٹریاں کئی دہائیوں سے بندپڑی ہیں۔ ان ویران فیکٹریوں میں لگی مشینری زنگ آلود ہوچکی ہے۔
روزگار کی عدم دستیابی نے ڈونلڈٹرمپ جیسے متعصب مسخرے کو دنیا کے طاقتور ترین ملک کا صدر منتخب کروادیا ہے۔ برطانیہ کی ملوں میں پھیلی ویرانی نے وہاں کی سفید فام اکثریت کو Brexit کی حمایت میں ووٹ دینے پر مجبور کیا۔ تارکینِ وطن کے خلاف نفرت اب فرانس پر بھی حاوی ہوچکی ہے۔ یورپ کے بیشتر ممالک کے عوام کی بے پناہ اکثریت اپنی سرحدوں کو غیروں کے لئے بند کرکے خود کو باروزگار اور محفوظ بنانا چاہ رہی ہے۔ ایسا مگر ہو نہیں سکتا۔
سرمایہ ہمیشہ سستا ترین مزدور ڈھونڈکر زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کے لئے دنیا بھر میں اپنی پسند کے مقامات ڈھونڈتا رہے گا۔نت نئی ایجادات کے ذریعے لوگوں کو اشیائے صرف اور خدمات مہیا کرنے کے لئے مخصوص شعبوں میں ماہر کاریگرذہنوں کی ضرورت ہوگی۔ دنیا بھر میں پھیلا ہوا تعلیمی نظام مگر ابھی ایسے ہنر مند تیار کرنے کے قابل نہیں ہوا۔ہیجان اور افراتفری کا ایک طویل دور شروع ہوچکا ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔
مذکورہ بالا عالمی تناظر میں پاکستان کے معاملات پر ذرا ٹھنڈے دل سے غور کیا جائے تو ہمارا ملک اب بھی امکانات سے مالامال ہے۔ ہماری زمین میں معدنی وسائل کے بے پناہ ذخیرے دفن ہیں۔ انہیں قابل استعمال بنانے کے لئے سرمایہ کاری میسر ہوجائے تو روزگار کے بے شمار وسیلے بھی پیدا ہوجائیں گے۔ ۔ سیاسی حوالوں سے یہ استحکام 2008ء سے 2013ء تک پہنچنے کے بعد نئے انتخاب کے ذریعے ایک نئی حکومت کو اقتدار منتقل ہونے کے ذریعے نظر آیا۔ تمام تر ہیجان کے باوجود 14 سال کے طویل وقفے کے بعد ایک آرمی چیف اپنی تین سالہ معیادِ ملازمت ختم کرنے کے بعد عزت واحترام سے رخصت ہوگئے۔ ان کی جگہ آنے والے چیف کے ساتھ بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اورپھر آئے 2018ء جب ہم اپنا ووٹ بہت ہی سوچ سمجھ کر استعمال کریں اور اپنے منتخب رہ نمائوں کواجتماعی بصیرت کی تلاش اور استعمال پر مجبور کریں۔
پاکستان کو سنوارنے کے لئے ’’دبنگ‘‘ افراد کی نہیں اجتماعی بصیرت اور اداروں کی ضرورت ہے۔ اسے تلاش کریں اور اداروں کو توانا تر بنائیں۔ اس کے علاوہ امن،سکون اور خوش حالی کا کوئی اور ذریعہ میسر ہی نہیں۔