فائضہ رانی اپنے ابو اور امی کی لاڈلی بیٹی تھی۔ ہوتی بھی کیوں نہیں جو ان کی شادی کے آٹھ برس بعد اس دنیا میں آگئی تھی۔ اس کی ہر فرمائش وہ دونوں بنا کوئی وقت ضائع کرے جلد پوری کردیتے تھے۔ آج فائضہ رانی نے ایک حسین و خوبصورت گڑیا کی فرمائش کی تھی تو اماں نے فوراً فائضہ کے باپ کو فون پر مطلع کیا جو دفتر میں اپنے کام میں مشغول تھا۔
دفتر سے نکلنے کے بعد ہی ابو وہی گڑیا ڈونڈھنے میں مصروف ہوگیا جس کی بیٹی نے فرمائش کی تھی۔ ایک کے بعد دوسرے دوکان پر جاتے جاتے آخر ابو نے وہی گڑیا اپنی لاڈلی کے لیے خریدی جس کا وہ گھر میں بے صبری سے انتظار کر رہی تھی۔ گھر پہنچ کر جب گڑیا فائضہ رانی کے ہاتھوں میں تھما دی گئی تو اس کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا۔ وہ خوشی سے جھوم اٹھی اور اپنے ابو کو ماتھے پر بوسہ دیتی رہی۔
آج بھوک اور پیاس کی دیوی پتہ نہیں کہاں چلی گئی کیونکہ خوشی کی وجہ سے نہ اس نے کھانا ہی کھایا نہ ہی کسی لفافہ بند چیز کی فرمائش کی۔ بس وہ ان سوچوں میں گم ہوگئی تھی کہ گڑیا کو اپنے قریب ایک پہلو میں رکھ کر وہ کس کمرے میں سوجائے گی۔ آخر اس نے من بنالیا کہ دوسری منزل پر پینلنگ والے چھوٹے کمرے میں ہی سوئے گی۔
کچھ دیر بعد ہی دونوں باپ بیٹی شام کے لیے میوہ وغیرہ لانے بازار کی طرف نکلے۔ آدھ ایک گھنٹے میں ہی دونوں واپس آ گئے۔ جب وہ اپنے گھر کے بالکل قریب پہنچے تو عورتوں کی چیخ و پکار اور آگ کے شعلے آسمان کی طرف اڈتے ہوئے ان کے بھی ہوش اڑ گئے۔ بھیانک آگ نے پورے محلے کو اپنی لپیٹ میں لیا تھا اور مرد و زن رو رو کر آنکھوں سے اشکوں کی دھار بہا رہے تھے۔ کوئی اپنا بچا کھچا سامان اکھٹا کر رہا تھا تو کوئی اپنے بال بچوں کی فکر میں گم سم نظر آرہا تھا۔
یہ منظر قیامت صغری کا دکھ رہا تھا جہاں ہر آنکھ نم اور ہر قلب رنجیدہ نظر آرہا تھا۔ ایسے میں نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں پریشان نظر آرہے تھے کیونکہ ایک تو ان کے گھر اجڑ گئے تھے دوسرا ان کی کتابیں، کاپیاں و دیگر ضروری و اہم اشیاء راکھ کے ڑھیر میں تبدیل ہوچکے تھے۔
عورتیں آپس میں بار بار ایک ہی سوال کرتیں تھیں کہ پکائیں کہاں، رہیں کہاں اور کہاں رات کو آرام کریں۔ مرد حضرات بھی غمزدہ دکھ رہے تھے کہ کس طرح اب نئے سرے سے مکانات کی تعمیر کریں تاکہ بیوی بچوں کو آشیانہ فراہم کریں۔۔
اسی اثنا میں فائضہ رانی اپنے ابو کے گود میں بیٹھی بار بار خود سے ہی سوال کررہی تھی کہ اب وہ گڑیا کے ساتھ کہاں سوئے گی۔۔