ترنم ریاض بیک وقت ایک معروف شاعرہ، افسانہ نگار، مترجم اور تنقید نگار کی حیثیت سے ادبی دنیا میں جانی جاتی ہے۔ جن خواتین ادباء نے ادبی دنیا میں برق رفتاری سے ترقی کے نئے منازل طے کئے ہیں اور اپنی خاص پہنچان بنائی ہے ان میں ایک نام ترنم ریاض کا بھی ہے۔ اردو زبان و ادب کی خدمت ترنم ریاض کے خون میں ہی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے جزبات و احساسات کو ادب کی مختلف اصناف کا سہارا لے کر اظہار کرتی ہے۔
متعدد مواقعے ملنے کے باوجود ترنم ریاض نے کہیں باضابطہ ملازمت نہیں کی۔ انہوں نے کئی قومی و بین الاقوامی سیمناروں میں شرکت کی۔ ان کے ادبی قد کو مدنظر رکھتے ہوئے 2014 میں انہیں سارک لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا۔ ترنم ریاض بیس تصنیفات کی مصنفہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ہمدرد دل رکھنے والی شخصیت کا نام ہے۔ ان کے کئی ناول بھی منظر عام پر آئے ہیں اور جس ناول کی وجہ سے وہ دنیا بھر میں مشہور اور متعارف ہوگئی وہ "برف آشنا پرندے" ہے۔ مرا رخت سفر، ابابیلیں لوٹ آئیں گی، یمبرزل اور یہ تنگ زمین ان کے معروف افسانوی مجموعے ہیں۔
وادی گلپوش سے تعلق رکھنے والے کئی ادباء اور نوجوان اسکالر ان کے ادبی خدمات پر مختلف جامعات میں تحقیق کا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان ہی ہونہار اور نوجوان اسکالروں میں ایک معروف نام زاہد ظفر کا بھی ہے۔ ضلع شوپیاں کے کیلر گاؤں سے تعلق رکھنے والے زاہد ظفر نے ترنم ریاض پر اچھا خاصا کام کیا ہے اور ان کا پی ایچ ڈی بھی موصوفہ کے افسانوں پر اس وقت جاری ہے۔ زیر نظر تصنیف "ترنم ریاض کے افسانوں کا تجزیاتی مطالعہ" زاہد ظفر نے ہی بہت محنت اور لگن سے ترتیب دی ہے۔ 365 صفحات پر مشتمل یہ ضخیم کتاب وادی کے مشہور پبلشر جی این کے پبلیکیشنز کے زیر اہتمام شائع ہوئی ہے۔ کتاب کا سرورق دیدہ زیب ہونے کے ساتھ قاری کے دل کو بھی چھو لیتا ہے۔
اس کتاب میں ترنم ریاض کے پندرہ افسانے درج ہیں جن کا تجزیاتی مطالعہ بھی افسانے کے آخر میں دیکھا اور پڑھا جاسکتا ہے جو ممتاز ادیبوں نے تحریر کئے ہیں۔ اس کے علاوہ اس کتاب میں ڈاکٹر ریاض توحیدی کا پیش لفظ، زاہد ظفر کی اپنی بات اور پروفیسر قدوس جاوید، ڈاکٹر ریاض توحیدی، عشرت ناہید اور ڈاکٹر قسیم اختر کے چار مضامین بھی شامل ہیں۔ زاہد ظفر نے اس تصنیف کو جموں کشمیر کے تمام افسانہ نگاروں کے نام کیا ہے۔
کتاب کا پیش لفظ لکھتے ہوئے ڈاکٹر ریاض توحیدی مانتے ہیں کہ ان افسانوں کے ساتھ ساتھ ترنم ریاض کی افسانہ نگاری کی فنی خوبیاں بھی اجاگر ہوگئی ہیں۔ بقول زاہد ظفر، ترنم ریاض نے اپنی تنقیدی اور تحقیقی کتابیں بھی یادگار چھوڈی ہیں۔ ڈاکٹر قدوس جاوید کے مطابق ترنم ریاض کو ان کے شہکار کشمیر مرکوز ناول "برف آشنا پرندے" کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ ترنم ریاض کا فن کشمیری سائیکی کا بے باک ترجمان ہے۔ ترنم ریاض کی فکشن نگاری پر بات کرتے ہوئے ڈاکٹر ریاض توحیدی لکھتے ہیں کہ ترنم ریاض کی تخلیقات میں وادی کشمیر کے درد کے ساتھ ساتھ یہاں کے فطری مناظر اور سماجی زندگی کی فنی عکاسی جگہ جگہ نظر آتی ہے۔
عشرت ناہید ترنم ریاض کے بارے میں رقمطراز ہیں "ترنم ریاض کے افسانے انسانیت کے سبق کو بھلا دینے والے انسانوں کی داستانیں معلوم ہوتے ہیں"۔۔ ڈاکٹر قسیم اختر کا طویل مضمون بھی کتاب میں شامل ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ترنم ریاض نے نہ صرف خواتین تخلیق کاروں میں اپنی منفرد شناخت قائم کی ہے بلکہ انہوں نے نوے کی دہائی کے بعد کی نسل کے افسانہ نگاروں میں اپنا دبدبہ قائم کیا ہے۔ ہم تو ڈوبے ہیں صنم، کتاب میں شامل پندرہ میں سے یہ پہلا افسانہ ہے جس کا تجزیاتی مطالعہ ڈاکٹر عالیہ کوثر نے تحریر کیا ہے۔
اس افسانے میں دو محبت کرنے والوں کی محبت و انیست کا اظہار نظر آتا ہے۔ شاہد کی بے حسی اور نادیہ کی وفاشعاری اس افسانے کا مرکز ہے۔ افسانے میں یہ تصور دیا جاتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں شاہد جیسے کردار موجود ہیں جو لائق نفرت ہے اور اس کا اپنی اہلیہ کے تئیں برتاؤ کم ظرفی کی مثال ہے۔ نادیہ جو انتہائی محبت کرنے والی عورت ہے اور کسی طرح کی امید نہیں رکھتی بلکہ صرف محبت کرنا چاہتی ہے۔ اس کی بے انتہا برداشت قاری کو ناگوار گزرتی ہے۔
بی بی کتاب میں شامل یہ دوسرا افسانہ ہے جس کا تجزیاتی مطالعہ رفیع الدین انجم نے لکھا ہے۔ یہ افسانہ ترنم ریاض نے کمال فنکاری سے تخلیق کیا ہے۔ اس کی کہانی ہماری زندگی کی دیکھی بھالی کہانی ہے۔ بی بی جو عمر دراز مظلوم عورت ہے کو اپنے اہلہ خانہ جس میں اس کا بیٹا، بہو اور بچے شامل ہیں خطرناک ازیت پہنچاتے ہیں۔ اچانک ہانڈی کا ڈھکن کھول کر وہ یہ دیکھ رہی ہے کہ آج کیا پکایا گیا ہے تو اچانک اس کے سر کا سفید بال سالن میں گرجاتا ہے اور اسے موردالزام ٹھہرایا جاتا ہے اور نفرت کی نگاہوں سے دیکھا جاتا ہے۔
ماں صاحب، کتاب میں شامل ایک اور افسانہ جس کا بہترین اور خوبصورت تجزیاتی مطالعہ دانش اثری نے لکھا ہے۔ اس افسانے میں چار بنیادی کردار ہیں یعنی ماں صاحب، خرم، شگوفہ اور قیصر۔ ماں صاحب جو ایک عمر رسیدہ بیوہ عورت ہے اپنے بیٹے خرم کو پالا پوسا، اچھی تعلیم دی، تربیت کی اور وہ ایک اعلیٰ مقام حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوا۔ شگوفہ اس کی بہو ہے جو بار بار شوہر سے یہ شکایت کرتی ہے کہ ماں صاحب بےجا اور غیر ضروری فرمائش کرتی رہتی ہے۔ خرم کوئی توجہ دئیے ماں کی تمام فرمائشیں پوری کرتا ہے یہاں تک کہ اسے عمرہ و حج کے لیے بھی روانہ کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہاں بزرگوں کو نظرانداز کرکے انہیں اولڈ ایج ہوموں میں رہنے کے لیے مجبور کیا جاتا ہے وہیں کچھ باضمیر بیٹے بھی سماج کا حصہ ہیں جو اپنے والدین خاص کر بیوہ ماں کی فرمانبرداری انجام دینے میں کسی کوتاہی کا شکار نہیں ہوتے ہیں بلکہ انہیں ہرطرح کی سہولت و آرام کا سامان مہیا رکھنے میں ہی اپنی خوشی سمجھتے ہیں جو اس افسانے میں دکھتا ہے۔
برآمدہ، اس افسانے کا تجزیہ معروف مصنفہ و فکشن نگار پروفیسر نیلوفر ناز نحوی نے تحریر کیا ہے۔ یہ افسانہ تین مرکزی کرداروں شہلا، سہیل اور جنید کے اردگرد گھومتا ہے۔ شہلا کا شوہر سہیل سالوں سے کسی دفتر میں کام کرتا ہے۔ خود کو حد سے زیادہ مصروف رکھتا ہے یہاں تک کہ نو سالوں میں صرف تین مہینے اپنی بیوی کے ہمراہ بحیثیت ایک شوہر گزارتا ہے۔ شہلا سب کچھ برداشت کر لیتی ہے تنہائی کا کرب بھی چپ چاپ سہہ لیتی ہے۔ بعد میں اسے پتہ چل جاتا ہے کہ وہ کہیں اور منہ مارتا ہے کسی اور میں دلچسپیاں لیتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ شہلا بھی جنید میں دلچسپی لینے لگتی ہے جو سہیل کا بھائی ہے۔ مردوں کی اپنی بیوی کے تئیں بے وفائی کو بڑی فنکاری اور ماہرانہ طریقے سے دکھایا گیا ہے جو معاشرے میں ایک ناسور کی طرح پھیل چکا ہے۔
برف گرنے والی ہے، اس افسانے کا تجزیاتی مطالعہ زاہد ظفر نے خود ہی لکھا ہے۔ یہ وادی کشمیر کے ایک انتہائی غریب گھر کی کہانی سنارہا ہے۔ اتنے غریب کہ دو وقت کی روٹی بھی بڑی مشکل سے ممکن ہوپاتی ہے۔ اس کہانی میں بھی تین کردار خضر محمد، اس کی اہلیہ حاجرہ اور بیٹا جاوید مرکزی حیثیت رکھتے ہیں جن کے اردگرد افسانہ گھومتا ہے۔ بیٹا جاوید سے اپنے والدین کی تنگدستی برداشت نہیں ہوتی ہے اور وہ کوئی کام کرنا چاہتا ہے لیکن سرکار نے بچہ مزدوری پر روک لگا رکھی ہے اور پورا گھر مزید مصیبتوں اور پریشانیوں کا شکار ہوتا ہوا نظر آتا ہے۔
ایک اور افسانہ تعبیر جس کا تجزیاتی مطالعہ معروف انشایہ نگار ایس معشوق نے بڑی عرق ریزی سے تحریر کیا ہے۔ اس افسانے کی کہانی ایک لڑکی سے شروع ہوتی ہے جو مشکل حالات کا مقابلہ کرکے تعلیم حاصل کرتی ہے پھر محکمہ تعلیم میں بحیثیت ایک مدرس تعنات ہوتی ہے۔ اس کے دل و دماغ میں بہت سے خواب سجھے تھے جن کو وہ شرمندہ تعبیر بنانا چاہتی تھی لیکن سماج میں خاص کر سرکاری محکموں میں آفیسران و کلرک حضرات کس طرح صنف نازک کو طرح طرح کی ازیتیں دیتے اور ستارہے ہیں اچھی طرح دکھایا گیا ہے۔ ترنم ریاض فکشن کا ایک اہم نام ہے جس کے بغیر اردو فکشن نامکمل ہے، ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف برصغیر کے بڑے بڑے ناقدین ادب نے بھی کیا ہے۔