"بارش"۔۔ اگر محظ لفظ ہے تو محاوروں میں ڈھل کر زندگی اور شخصیات کے مزاج و عادات کو منفی اور مثبت معنی میں ڈھال کر ایسے آئینے بناتی ہے کہ اس سے بنے عدسے نفس کے ہر پہلو کو ایک دوسرے کے سامنے آشکارا کرنے لگتے ہیں۔ اگر یہی بارش حقیقت کا روپ ہو بڑی خوبصورتی سے مالک کل اور طاقت بشر میں فرق واضح کر دیتی ہے۔۔
غرض آسمان و زمین کا رابطہ اس کے ایک ایک قطرے سے منسلک ہو کر شب و روز کی داستان لکھتا ہے جسے تاریخ کہتے ہیں۔۔
اس بارش کو حکم الہی ہو تو زمین میں جزب ہو کر تاریخ بچا لیتا ہے ورنہ ایسے طلاطم بپا کرتا ہے بساط زندگی تہ در تہ اجاڑ کر کھنڈرات بنا دیتا ہے۔۔ یہ زمین سیراب کرے تو حکومتیں عروج پاتی ہیں اور یہی بارش ضد پکڑ لے تو زمین کے اشک تک پی کر زندگی کو صحرا برد کر دیتی ہے
ترقی تو دور کی بات ایسی سر زمین پر کوئی زی روح گھر ہی نہیں بساتا۔۔
انسان جس مٹی سے بنا ہے اسے چیلنج بہت پسند ہیں اور اکثر یہ مقابلے کی صورتحال یا تو اسے غرور و تکبر عطا کرکے فرعون بنا دیتی یا پھر ایسا ولی اور متقی بنا دیتی ہے
انسانیت کو پیمبرانہ معراج بہ روئے مہیمن تعالی عطا کرتی ہے۔۔
کچھ تزکرہ اسی بارش کا پاکستان سے جڑا ہے کہ جب دل زخمی تھے تو ایمان افروز طاقت پرواز بھی تھی اس قوم کے پاس اور رحمت خدا برسات کی صورت برسی تو زمین کے ایک ٹکڑے نے شکر بھرے دلوں اور پیاسی روحوں کو گود فراہم کر دی۔۔ یہ گود آج بھی سیراب ہے لیکن جھوٹے خداوں نے شطرنج کا کھیل اس گود میں ایسی شرطیں لگا کر کھیلا کہ اب اس کے ستونوں میں لرزہ طاری ہے
اس وطن کے ہر زرے میں گویا اشک اور سسکیاں بوئی جا رہی ہیں اور یہ دھرتی ترس بھری آنکھیں اور لٹے پٹے مسافر دلوں کو جنم دینے لگی ہے
یہ دھرتی منتظر ہے رحم اور شفقت کی بارش کی۔۔ جو اب بھی ہو سکتی ہے اگر آنکھوں اور دلوں میں طاقت پیدا ہو جائے۔۔ ہمارے حکمران شطرنج کے کھیل میں دھرتی کا سبزہ بیچ رہے ہیں اس کی زرخیزی بیچ رہے ہیں۔۔ انہیں ہر چال مقابل کی چالیس چالیں سوچ کر چلنا ہوگی
ورنہ شطرنج کے چھتیس مربعے کبھی بھرے نہیں جائیں گے گے اور بادشاہوں کو تخت بھی داو پر لگا کر سوائے خاک کے کچھ ہاتھ نہ آئے گا۔۔
پانامہ لیکس کی شطرنج دو پارٹیوں نے کھیلی۔۔ لیکن ہوا کیا۔۔ فائدہ تو صرف تماش بینوں کو ہوا۔۔ بساط تخت و راج و تاج بچھا تو دی گئی لیکن افسوس کھلاڑی سب اناڑی تھے
ان کی چالیں شہ اور مات کی دھمکیوں سے آگے گئی ہی نہیں۔۔ اصل جیت کس کی ہوئی کچھ پتہ نہیں لیکن دونوں کی شطرنج برے طریقے سے پٹ گئ۔۔ اب کس کا مہرہ کدھر گرا دونوں لا علمی کے جنگل میں نابینا ہو چلی ہیں۔۔
لیکن کوئی تیسری طاقت جو تماش بینوں میں سے ابھرے گی
وہ ضرور فوج سے ابھرنے والی ہے۔۔ عنقریب اگر نوازشریف نے اب بھی سلطان زمن کی طرح ایمانداری سے قوم کو سنمبھالا نہ دیا تو یہ زمین دشت بن کر صرف خون اگلے گی۔۔ میرے وطن کے سربراہ اگر اللہ کا شکر ادا کرنے سے اب زرا بھی چوکے تو یہ وطن ان کے سینوں پر سے اپنے نام کی تختی ہٹا کر نہ صرف سانپوں او بچھوؤں کو حکمرانی سونپ دے گا بلکہ انسانوں کی جگہ ڈریکولا بھی پیدا ہوں گے۔۔ عمران خان دور رس وژن رکھتے تھے لیکن اپنی پارٹی میں بد نام زمانہ اشخاص اور ضرورت کے قلی بھرتی کرکے اپنے وژن کو زنگ لگا چکے ہیں۔ یہ شخص انقلاب پاکستان کا آخری جانباز تھا افسوس صد افسوس اس نے جلد تخت کے لالچ سے بغلگیری کی۔۔ اسے تاج ملے تو سر آنکھوں پر لیکن اس کی پارٹی میں جونکیں اور دیمک اس کا تخت اور تاج ہمیشہ کھا جاتی ہیں لیکن اس کے دل کی آنکھیں بدستور بند ہیں۔۔ جب اس نے عوام کے دل توڑ دیے تو عوام اسے ووٹ کیسے دے گی
اور سچ سننے کا یہ کھلاڑی عادی نہیں رہا۔۔ نوازشریف پرانےکھلاڑی ہیں ان کے پاس کئی ترپ کی چال باقی ہے کیونکہ اب بھی ان کے وفادار کروڑوں میں ہیں۔۔ عمران اب بھی چال چل سکتے ہیں سیاست کی شطرنج جیت نہیں سکتے۔
جبکہ دوسری طرف شریف فیملی ایک تیسری قوت کو آواز دے رہی ہے یا تو پردیسی بابو دلہن کو تحفظ شرعی دے دے یا پھر گھر کا چوکیدار نیلامی تخت کا حصی دار بن جائے
۔۔ اس پر بے حد ظلم یہ کہ عوام کو شعور سے کوئی کام کرنے دینے کا انتظام کسی حکومت وقت نے کبھی کیا ہی نہیں اس ملک کو طیب اردگان اور جسٹن ٹروڈو جیسے والدین چاہیے ورنہ یہ جاہل قوم ترقی کے شارٹ کٹس اپناتےاپناتےاب بھی پتہ نہیں کتنے آئل ٹینکروں سے تیل چراتی اور غربت کو بھی بدنام کرتی جل مرے گی اور اندھی ہو کر ووٹ دے گی۔۔ اللہ اس وطن اور نظام وطن پر رحم کی بارش فرما دے اور اس بار اس بارش میں شعور اور آگہی بطور خاص عوام کے لیے برسے آمین