1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. صائمہ عروج/
  4. عظمتوں سے حاسد شاہ اور پیادے

عظمتوں سے حاسد شاہ اور پیادے

ریگزاروں میں بھار اُترے تو بھی وہ ھیں معترض
اور خزاں میں رنگ جوبکھریں تو دل انکا ھے بےقرار

ھاتھوں میں کاسہ اور تن برھنہ ان کے تراشیدہ شاہکار
کیسے ھیں عالی مقام جن کا نفرت ھے رشتہ اور حسد ھے یار

تاریخ شاھد ھے کہ جو سلاطین سادگی سے جیےٴ اُن کی رعایا نہ صرف خوشحال رھی بلکہ اُن کے ادوار فنون لطیفہ، علم اور ترقیِ تھزیب و ثقاف کا باعث ھوےٴ اور یہ ادوار سنھری کھلاےٴ۔ فتوحاتِ بلاد اِسلامیہ اور وسعت سلطنت اِسلام کبھی وقت کی رفتار سے آگے گردانے گےٴ، پھر ایسا کیا ھوا کہ وقت کے سمندر میں اسلام اور مسلمان ھی میں تصادم، تفرقہ پرستی، چاہ جاہ و حشمت، حسد اور اَخلاقی نمود و نمایش نے تصویر کائنات میں خود رو جنگلوں کا اِضافہ کر دیا۔ جنگل سبزہ زار ھوا کرتے ھیں، خوبصورتی میں بھی یکتا ھوتے ھیں لیکن درحقیقت وھاں موجود زندگی بِنا قانون ھوتی ھے، بِنا تھزیب ھوتی ھے اور اہم بات یہ کہ بنا انسان ھوتی ھے۔

جمادات و نباتات، چرند، پرند، ھوا، پانی، آسمانَ، زمین غرض کہ تمام موجودات حسن تخلیقِ خالقِ عظیم کا منہ بولتا ثبوت ھیں لیکن اشرفُ المخلوقات انسان ھی کیوں؟ یہ ھی العزیزوالمصور کا شاہ پارہ کیوں؟ ایک لاکھ چوبیس ھزار تعلیم یافتہ باتھزیب اور پر جوش پیام رساں اور محافظ انسانیت اِس مخصوص تخلیق کا خاصہ ھی کیوں؟ ھر دور حیات میں انسان کا چرچا ھی کیوں؟ اِس کے ادوار میں کتب، قلم، علم، اُصول، قوانین، تربیت، ایمان، عبادات، توحید و واحدانیتِ خدا، فرشتوں جیسے خدام خدا، گھر، بستیوں آبادیوں قوموں ملک اورمملکتوں اور اِنسانوں میں سے ھی چنیدہ خلفاےٴ خدا پھر بھترین تربیت نفس یعنی تقوی، فرمانبرداری، قیامت، حساب قیامت اور پھر کن فیکون کہتے ھوےٴ المھیمن وزوالجلال کا بنا تزلزل اور بنا تبدَل جلوہ افروزی کا وعدہ کیوں؟

غور وفکرکے لیے انسان کا عام العوام ھونا بے حد ضروری ھے۔ جب انسان خود کو خواص میں شامل کرنے لگے تو وہ ھر اُس غور وفکر کو خیرآباد کہ دیتا ھے جو اس کے وجود کی اولین وجہ ھے۔ تمام انبیاء کو اعلانِ نبوت سے پہلے اللہ کی طرف سے عوام ھی میں تربیت کیا گیا پھر سرفرازئِ عھدہ پر فائز کیا گیا۔ میرے حسین العجائب اورعظیم الخزائن پاکستان میں اہل حکم مغربی پیرھن اور غازہ امراء جسم فانی پر مزین کرکے دام شہرت کے سجادہ نشین بن کر روز ٹی وی چینلز پر شعبدہ بازیوں میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی فکر میں رھتے ھیں۔

معلمین و بے عمل علماء کے کئی فرقے بن چکے اور اُمراء نے پارٹیاں بنا لیں۔۔ فوج اور خدا خدا کرکے میڈیا کی صورت راھنمائیت کے دو پلیٹفارم میسر آےٴ ھیں تو تنقٰید اور حسد کے پیروکار اِنھیں آسماں سے ثریا پر اوندھا دیکھنے کے بے تھزیب، پسماندہ زھن اور بے توقیر ایسے احکام بالا ھیں جو ھر حرام کام نعوزبااللہ۔ باسم اللہ سے شروع اور ماشااللہ پر ختم کرتے ھیں اور غرور کے سرور میں جھوٹ کی موسیقیت بھرے بے ایمانیوں کے نغمات ان کے دلوں کو وقتِ حساب بھُلا کر طمانت دنیا اورمدھوشئِ دُوَل مھیا کیے ھوے ھیں۔

کل ایک معروف ٹی وی اینکر تجزیہ نگار تبصرہ نگار اور قلوب عوام کو دھڑکن دھڑکن قلم کی نوک سے لفظوں میں معجزہ بنا دینے والے معجزاتی محرر کے پروگرام میں حکمران سیاسی جماعت کے نمائندہ نے اغاز بیان ظنزیہ چنیدہ الفاظ اور پڑھے لکھے ھونے کے باوجود طریق حسد سے کیا تو کف افسوس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ لیکن آفرین ھے اُس سلطان تدبر اور حقیقی مثال علم و تھزیب پر کہ کمال شفقت سے نہ صرف بد تھزیبی کو برداشت کیا بلکہ پروگرام ھمیشہ کی ترح شان قلندری سے جاری رکھا اور بے انتِھا خوبصورتی سے حسب روایت دعاےء خیر کے ساتھ اِختتام تک پھنچایا۔ ان کے کمال فن اور انتھاے حسن ادا و حسن بیان کو سلام۔

میرے قلب و تخیل میں طلاطم بپا تھا کہ اگر مجھے بہ حیثیت عوام رسائی تا شاہ ھو تو پوچھوں ان کوزہ گروں سے کہ تھوتھے چَنوں سے دربار بھر رکھا ھے اور روز تماشے کو نئے بندر اپنے درباری ماتم کدہ سے علم و فضل کی آماجگاہوں تک بھیجتے ھو۔ کیا آپ کی قبور کی مٹی الگ ھے یا اِس دَھر کے اولیاء ھو؟ کیا عوامی نمائندے ایسے ھوتے ھیں کہ پس ازمرگ واویلا مچاتے ھیں اورپیش مرگ غلام اغیار۔ اجی کیا ھی کھنے۔ روش روش تعصب اور منزل منزل عناد تو عوام کاھے ھوں گے آپ سے شاد؟

اجی حضور۔۔ عوام میں بھوک پیاس آپ کے کشکول میں سے عظمت چھین رھی ھے پھر آئی ایم ایف جو عزت رکھ لیتا ھے آپ کی تو یہ نہ ھو اس بت کی پرستش آپ کی بچی کھچی مسلمانی لے ڈوبے۔۔ کم ازکم اپنے نمائندوں کو گفتگو کے آداب ھی سکھا دیجیے۔۔ عوامی انداز کے نامہ بروں کو انداز مسلمانی و خودی ھی سکھا دیجیے۔ یہ بڑے بڑے فنکار کاروں کی اےسی زدہ فضا سے باھر آتے ھی آداب وآگہی بھی سے فارغ نظر آتے ھیں۔۔ گویا حکومت کی عزت کا جنازہ اپنی گفتگو سے اور اپنے کردار و عمل سے آپ کی فاتحہ خوانی کے در پے رھتے ھیں۔

میرا تخیل شوریدہ ھے کہ آج انسان اور حکمران کو الگ الگ طبقہ قرار دیا جاے کیونکہ انسانوں کے نمائندے تو انسان ھوا کرتے ھیں اور جن کا انسانیت سے کوئی واسطہ نھیں شائد وہ حکمران طبقے سے ھیں۔ مثال پوچھتے ھیں تو ایک ھی نام ھے۔۔ میرے نبی کریم ﷺ کا۔۔ پھر جو ان کے پیروکار ھوے تاریخ گواہ ھےوہ ھمیشہ کامیاب و کامران رھے۔۔

کیا آپ کی حکمرانی میں حسد شامل نھیں۔۔ کیا خصوصاً میرے وطن کے حکمران کامیاب ﴿انسان﴾ ھیں؟ کیا آپ حکمران ھیں؟ زرا سا وقت خود کے احتساب پر دیجیے۔۔ ورنہ حسد نیکوکاروں اور ان کی نیکیوں کو اکٹھا کھا جاتا ھے۔۔ سُنا ھے آپ نے بھی میٹرو، اورنج ٹرین، گوادر پورٹ، بڑی سڑکوں چند عوامی تعلیمی اداروں اور دال کی بجاے مرغی سستی کرنے جیسی نیکیاں کر رکھی ھیں۔۔ کم از کم ان کا تو خیال رکھ ھی لیجیے۔۔ عوام پیٹ کیسے بھرے، تن کیسے ڈھانکے اور رھائش کیسی ھو؟ آپ فکر نہ کریں اور دعوی حکمرانی بھی۔۔