1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. صائمہ عروج/
  4. براہ راست درد کی گونج سے!!!

براہ راست درد کی گونج سے!!!

محرروں کے قافلے مصروف تحریر ہیں، ناقدین نشتر تنقید سے گویا اصلاح و اصلاحات کی فکر میں ہیں، علماء ادیان و روایات مذہب اور مذہبیت کی اصطلاحات سے منشور خلق ترتیب دینے کی فکر میں ہیں، درس و تدریس جیسی بھی ہے زوروں پر ہے، اطباء، حکماء، تخلیق کار، فن کار، شائقین علم و فن، عظیم تر ناقابل مقابلہ ازہان اور مال و دولت پر مقبوض امیر ترین اشخاص اور روشن چراغان ترقی و بلند ہمتاں سے دنیا معمور نظر آتی ہے۔۔ لیکن۔۔ سورج کے مشرق و مغرب تک کے گردو نواح میں یہ گرد و غبار۔۔ یہ چیخ و پکار۔۔ یہ آہ و بقا۔۔ یہ جسموں کے چیتھڑے۔۔ یہ زندہ درگور ہوتے مسلمانوں کی فغاں۔۔

یہ شب و روز نازک جسموں کو روندتے ہوے ہڈیوں کی چٹخ

۔۔ یہ تو کسی خوبصورت پینٹنگ کا درد ہے۔۔

شائد اس درد کو چھپانے کے لیے یوں لگتا ہے مصور شوخ رنگ استعمال کر کرکے تھک چکا ہے۔۔

یہ مصور دراصل یورپ ہے اور اس نے جو کینوس چنا ہے

اس کے مطابق وہ انتخاب ہی غلط کر بیٹھا ہے۔۔

جو رنگ اللہ تعالی نے امن و آشتی کے چنے تھے ان سے کائنات خوبصورت تھی، لیکن ابلیس کے پیروکاروں نے

توحید کے مقابل آنے والوں نے سیاہی دل سے جو کچھ بھی بنایا اس نے رنگوں کی بہ ترتیب قوس قزح کو صرف ایک رنگ دیا۔۔ لال سرخ رستے ہوے خون کا رنگ۔۔

ہاں ہاں یہ رنگ ہر مہنگی سے مہنگی تصویر سے ٹپک رہا ہے کیونکہ مصور دھوکے باز ہی نہیں خونخوار بھی ہے

۔۔ ہاں یہ مصور تہزیب اغیار ہے۔۔ یہ مصور مغرب کا مقلد ہے۔۔ یہ مصور دہشت گرد ہے۔۔ یہ مصور قاتل ہے۔۔ یہ مصور

ہم سب کے سامنے کا آسیب بن چکا ہے۔۔ یہ مصور اسلامی تہزیب کے اعلی فن پاروں کے رنگ شب و روز بارود کے دھماکوں میں بے حیائی و بے انتہا ڈھٹائی سے روند رہا ہے

اور پھر اپنی بے حس آنکھوں میں بے حس دل کے آنسو لا کر امن کے گیت گا رہا ہے اور اس کے جھوٹے امن کے گیتوں کے سنگ اسلام کے غدار محو رقص ہیں۔۔

رقص کے اس اوپرا سے بارود کے دھوئیں اور گونجتی چیخوں سے پاک فضا اور آسمان اپنے چمکتے نیلے رنگ کے ساتھ دکھائی دیتا ہے اور زمین لت پت خون سے لتھڑی ہے لیکن سبزہ زار دکھائی دیتی ہے جس میں رنگ برنگ خواہشوں کے گلاب ہیں۔۔

اس بھیانک فن پارے میں قدرت نے ایک شاہکار تخلیق کر دیا اور وہ پاکستان تھا۔۔ یہ قدرت کا شاہکار اب بھی موجود ہے

۔۔ اچانک خون رنگ زمیں کے باسیوں نے اسے امید دل کہہ کر پکارا۔۔ شائد یہ ان کی آہوں کا قرار تھا۔۔ یہ وہ آئینہ تھا جس سے تہزیب مغرب کی اصلیت کھل کر دکھائی دے رہی تھی۔۔ زمین جہاں جہاں سے زخمی تھی اس کا مرہم یہاں بننے لگا تھا۔۔ مائیں اپنے خون سے چور بچوں کو گود میں لے کرپاکستان کے خطے کے نام کی لوریاں دینے لگی تھیں۔۔ ان کو صبر مل رہا تھا کہ اس خطے کی قوم یقینا درد زدوں کی ڈھال ہوگی۔۔ یہ حقیقت تھی۔۔ یہ حقیقت ہے۔۔

لیکن۔۔ اچانک ابلیس زمانہ کو خبر ہوگئی۔۔

اچانک چرس افیون، بارود، فرقہ پرستی، لالچ، جنسی ہوس ننگ و عار، بے راہ روی، کافر کافر کے نغمے، اس امن گاہ میں گھس گئے۔۔ اسلام اسلام کی جگہ سوئس دولت اور پانامہ پانامہ ہو رہی ہے۔۔ علامہ کے گھروں سے قرآن کی تربیت کی بجاے ڈیل کرو ڈیل کرو کی آوازیں ہیں۔۔ شیعہ کافر سنی کافر کی آوازیں ہیں۔۔

تو پھر مسلم کون؟

سوال ہے چلو مسلم نہیں تو ہم تم کون؟

اجی شاخت کھو بیٹھے۔۔ چہ چہ چہ۔۔ دھوبی کا کتا ہو بیٹھے۔۔

گھر تو پاکستان ہے۔۔ تو گھاٹ پہ کیا لینے جاتے ہو۔۔ یہ تمہیں ہششششش۔۔ ہشششششش۔۔ کون کر رہا ہے

چہ چہ۔۔ کس نے روٹی منہ کے آگے پھینک کر وفاداری مانگی۔۔ یہ ان دیکھا کون ہے تمھارا مالک؟

نہیں نہیں قطعی نہیں۔۔ یہ خدا نہیں ہے۔۔

خدا اور ابلیس میں کوئی پہچان کروا رہا۔۔ وہ دیکھو پاکستان کی فوج۔۔ وہ دیکھو سینہ سپر۔۔ تمہارے 72 فرقوں میں یہ فرقہ سچا ہے نا

اسی کی مان لو۔۔ تو خود کو بھی پہچان جاو گے اور ابلیس اور خدا میں بھی فرق نظر آے گا۔۔ دھوبی کے کتے اور مسلمان میں بھی فرق نظر آے گا

۔۔ لیکن اس بار ان سچے لوگوں سے میری اپیل ہے۔۔ یہ براہ راست درد کی گونج ہے۔۔

تو پھر عوام کے فورم پر آئیں۔۔ مخاطب ہوں عوام سے۔۔ ان چھوٹی موٹی پوسٹوں سے اونٹ کو زیرہ نہ کھلائیں

۔۔ عوام آپ کو چاہتی ہے۔۔ آپ جو کہیں گے کرے گی۔۔ آپ کی حکمت عملی تو ڈری

ڈری سی لگتی ہے۔۔

عوام انصاف کا بول بالا کرے گی

حکومت کو نشان منزل بتاے گی

قربانی کا مطلب سکھاے گی

دشمن پر خوف طاری ہوگا

ایک اتحاد پیدا تو کیجیے۔۔

لیکن مجھ جیسی بیٹیوں کی لمبے جواب

اور پاکستان کی لمبی زندگی کی حکمت عملی نہ تو آپ سے سہی جاتی ہے نہ ہی عمل ہوتا ہے اور ہم جیسے آج بھی تم سب میں سلاطین غیور کو تلاش کرتے ہیں

حالانکہ میری فوج جانتی ہے کہ ہمارے دل اس کے ساتھ دھڑکتے ہیں اور دماغ اسے ہی سوچتے ہیں۔۔ کہ شاید یہ ہمارے محسن اور نجات دہندہ ہیں

لیکن۔۔ صاحب اپنے دفتر سے باہر آ کر کسی مزدور کو شیلڈ دی کبھی؟

کسی جھگی والے کا درد پوچھا؟

کبھی بھوک میں تڑپتے بلکتے بچے دیکھے؟

کبھی فلسطین کے زندہ درگور ہوتے بچون کی آنکھون کے نیچے گالوں پر جمی مٹی دیکھی

کبھی ان کا سانس نکلتے ماوں کو پکارتے دیکھا

کبھی پاکستان میں مٹھی کے چمڑی میں گندھی ہڈیون کے ساتھ پیدا ہوے بھوک سے بلکتے مرتے بچے دیکھے

کبھی سوچا کہ کشمیر کا ہر گیارہ بارہ تیرہ چودہ سال کا بچہ بھارت کی جیلوں میں جنسی درندگی سہہ رہا ہے

اپنے پنجاب میں قوم لوط کے عمل سے دن رات ماں باپ جنسی درندگی کے شکار معصوم بچون کو اپنی بےبس گود مین لے کر آسمان سے مسیحا کی تلاش میں ہیں

۔۔ تمہاری پولیس شراب جنسی استحصال اور درندگی کے علاوہ کرتی ہی کیا ہے۔۔

سوچنے پر مجبور ہوں

کہ کیا تم وہی فوج ہو جسے ہم خالد بن ولید، محمد بن قاسم، سلطان صلاح الدین ایوبی اور صحابہ کرام کی فوج سمجھتے ہین

یا تم کوئی اور ہو

یاد رکھو اتنی تنقید اگر مین ایک بیٹی نے کی ہے جو خود ایک فوجی کی بیٹی ہے

تو سوچ لو کہ تم سے ٹوٹا تو پاکستان کو درندوں کا ملک ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا

یعنی تم اس ملک کی مایوس ترین قوم پیدا کر رہے ہو

حکمران سمجھتے ہیں عوام بے وقوف ہے۔۔

نظر آرہا کے اے پی ایس کے 150 شہیدوں اور زخمیوں کے سب کتنے خیرخواہ ہیں؟

جن سرحدوں کی تم حفاظت کر رہے ہو وہ پتھر اور اینٹوں کی ہیں۔۔

اپنی قوم کے دلوں روحوں رشتوں کی بھوک زیادتیوں اور امیروں کے چونچلوں سے حفاظت کرو

محفوظ ہو جاو گے اور اس ملک کو بھی بچا لو گے

عوام کو اپنا بناو۔۔ ہم تمہارے ہیں۔۔ جنگل کا قانون ختم کرو کہ حکمران اسی کے پیروکار ہیں۔۔

میں نے یہ نہیں کہا کہ اسلام نافز کرو۔۔ میں نے یہ کہا کہ جب خزانے پانامہ کی بجاے عوام کی فلاح پر لگیں گے تو تمہارے بچے بھی بھوکے نہیں سوئیں گے

ہمارے ایف جی کے تعلیمی ادارے بھی عالم

کی توجہ کا مرکز ہوں گے۔ یمارے وفاقی اور صوبائی تعلیمی ادارے بھی بین الاقوامی معیار کے ہوں گے

ہمارے ڈاکٹر انجینیر سیاستدان کسان زمی دار محنت کش سب اصلی ہوں گے

ہمارا ہر شعبی سی پیک ہوگا

اتنے محتاج کیوں ہو؟

کشکول کیوں نہیں چھوڑتے؟

انمول کیوں نہیں بنتے؟

تم تو سچی طاقت ہو پھر جھوٹے مت کہلاو

عزت والے ہو۔۔ بے عزت مت کہلاو!

انبیاء اولیاء کی ساری پیشینگوئیاں اٹھا کر دیکھ لو یہ خطہ دین محمدی ص کی سرخروی کا خطہ ہی نہیں عالم اسلام کی سربلندی کا خطہ ہے

اس کے میڈیا کو اس کے جوانوں کو ننگی اور گندی میڈیا مہموں سے پاک کرو۔۔

لیکن تمہارے پاس وقت ہی کہاں ہے

آج بازاروں میں بکتے عورتوں کے کپڑوں سے اندازہ لگا لو

کہ غیرت مر چکی ہے

اور جب ضمیر مر جائیں تو اللہ کے عزاب زندہ ہو جاتے ہیں۔۔ اللہ میرے وطن کو قائم و دائم رکھے

کاش کوئی قائد کوئی اقبال ہی مل جاتا

کاش!