ھمارے ھاں یہ الفاظ، یہ اصطلاح اور یہ خواھش کہ شارٹ کٹ حلال بمع حرام اور بے انتھا کرپشن کرتے ھوے اولیاء سے بخشش زندگی کے بیش قیمت خزانے ھیں نعوزباللہ حدیث بن چکے ھیں۔ استفادہ و استحصال میں تفریق ممکن ھی نھیں۔ حلال کھانا چاھیں تو مردہ مرغزاروں سے استفادہ فرمائیے۔ مٹن اور بیف میں کتے اور گدھے بھی تناول کیجیے اس سے کیا فرق پڑتا ھے۔
سوشل میڈیا آئے دن راہنما و ھادی ھے کہ فساد دین سے کنارہ کیجیے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا کی برائی سب کو بیّن ھے لیکن حیرت ھے کہ اچھائی نظر انداز کر دی جاتی ھے۔ اس پر میں محو حیرت نہیں ھوں کیونکہ جو قوم فراموش فرمودات ھادئی آخر و محبوب عالم ﷺ کر دے تو وہ فتنہ ادیان میں پڑ کر فنا ھو یا عزاب قیامة کے ظھور سے قبل عزاب و بلا میں مبتلا ھو اس سے مھیمن کائنات کو فرق نھیں پڑتا۔
ھمارے تاج پوش تخت طاؤس سے تخمینہٴ احوالِ عوام لگاتے ھیں اور فرمایا جاتا ھے دال مہنگی ھے تو مرغ کی دعوت اڑایے کہ ھم خیرخواہ اعظم ھیں۔ درد دل کے واسطے پیدا کیے گئے ھیں اور کروبیاں میں زکر خیر ھمارا ھی تو ھے۔۔ جبکہ تسلط تخت وتاج کے لیے نئے مہرے نئے چہرے نئی نسلیں تک بتان جہالت کے ہاتھ پر بیعت کروائے گئے ھیں۔ وہ آج بھی علم کے دشمن ھیں گو کہ یورپ کی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ھیں۔
بلاول، حمزہ، مریم نواز، حسن نواز، فاطمہ بھٹو، آصفہ بھٹو بختاور جیسے کچے ازھان بساط سیاست کو کیسے سمبھال پائیں گے کہ ان کے راہنما وھی غلامان اھلیان مغرب ھیں۔ شطرنجِ سیاست میں پھر ولی کہلانا تضحیک تعلیمات اسلام نھیں تو پھر اور کیا ھے۔ ہر بڑی سے بڑی کرپشن پر، ہر بڑے سے بڑے دھوکے پر، ہر قتل بے رحمی پر اور ہر عملِ بےشرمی پر واہ واہ اور ماشااللہ کھنا اِس سیاہ دور جمہوریت کی شان وآن بان گردانا جاتا ھے۔ اے کاش علامہ اقبال کے شاھین کرگس نہ ھوتے۔ بھیڑوں کے ریوڑ میں بھیڑیے نہ ھوتے اور انسانوں کی صورتوں میں چھپے درندے اور آدم خور نہ ھوتے۔
علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ فرماتے ھیں۔۔
ترے دریا میں طوفاں کیوں نھیں ھے
خودی تیری مسلماں کیوں نھیں ھے
عبث ھے شکوہء تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نھیں ھے؟
ارباب دانش و فھم میں ایک محقق حق اور مکتشف انوار سے متاثر محتجب اسم اُن کا رکھتے ھوے عرض یہ ھے کہ فکر اعمال سے استثنا خدا جانے جن خوشنصیبوں کو ھے وہ بڑے طمطراق سے معززین بن کر میڈیا پر نہ صرف لطف انجمن بڑھاتے ھیں بلکہ عظیم اینکر و نقاد سے بے انےھا زوق بےعزتی رکھتے ھوے اعتراف جرائم کرتے قطعئی شرمندہ نھیں ھوتے بلکہ عمیق زعمِ حکمرانی میں زوق طھور میں ڈوبے فرما رھے ھوتے ھیں"ھنگامہ ھے کیوں برپا۔۔ تھوڑی سی جو۔۔ "
اب صورتِحال یہ ھے کہ چھوٹٰی آنکھوں کے بڑے خواب اور پھٹی جھولی میں حق و حد سے زیادہ زرو جواھر کی اُمید وہ بھی آی ایم ایف سے۔۔ جن یھود کو کبھی مسلمان بھیک دیتے تھے آج اُن سے پاکستان کے نصیب کی بھیک مانگی جاتی ھے۔ آج آصف زرداری، شریف برادران، پی ٹی آئی، مولانا فضل الرحمن، اے این پی، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، پاک سرزمین پارٹی اور دیگر علماء و افضال کی گمنام پارٹیاں بڑے بڑے خفیہ کشکول ظاھر نھیں کرتیں اور اپنے مفادات کے کاسوں کو عوام کی آنکھوں پر ادھورے مزھب کی پٹی باندھ کر انھی کے خون سے رنگتی اور بھرتی ھیں۔۔
پھر سانحہ کوئٹہ ھو یا سانحہ اے پی ایس، سانحاتِ ریلوے ھوں یا جنوبی پنجاب میں غیر قانونی پلے ھوے دھشت گرد، قصور میں بچوں کی عزتوں سے کھیلا جاتا ھو یا عوام پولیس گردی کا شکار ھوتی ھو۔۔ حکمرانوں کے کتے بھی سکون سے سوتے ھیں اور وہ خود بھی پانامہ لیکس کی چھاوں میں آرام سے بے خطر خط قطر کی بین الاقوامی سکیورٹی میں چین سے با عزت سوتے ھیں۔۔
بس گناھ تو شائد عوام کرتی ھے۔۔ نھیں نھیں شائد نھیں یقیناً عوام کرتی ھے انھیں ووٹ دے کر۔۔
سیاست کچھ یوں ٹھھری۔۔
اس کھیل میں تعیین و مراتب ھے ضروری
شاطر کی عنایت سے تُو فرزیں، میں پیادہ
بیچارہ پیادہ تو ھے اک مھرہء ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ھے شاطر کا ارادہ۔