1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. صائمہ عروج/
  4. 56 مسلم ممالک کے مردہ ضمیر اور ملک شام

56 مسلم ممالک کے مردہ ضمیر اور ملک شام

لبنان، فلسطین، اسرائیل، اردن، عراق، ترکی جیسے شاندارمسلم ممالک کے درمیان موجود ہے لہو لہو خطہء شام جس کے دو کروڑ 45 لاکھ عوام میں سے 5 لاکھ 80 ہزار نفوس حیات ابدی میں پہنچا دئے گئے اور زخمیوں کی تعداد 15 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے، جبکہ 12 بلین آبادی گھر بار چھوڑنے پرمجبور ہوئی۔ ملک شام انبیاء کرام کی سر زمین ہے۔ ادلب، الیپو، حلب، دمشق، غوطہ اور کئی نواحی علاقے، گاؤں کھیت شہر، ھنستے بستے گھر اور گھرانے بشار الاسد کے اقتدار کی لالچ کی بھینٹ چڑھ چکے اور انبیائے کرام کے مزارات بے بسی کی تصویر بنے اجڑ رہے ہیں۔۔ اقتدار کا نشہ بھی کیا نشہ ہے اس نشے میں دین دنیا سب کی بولی لگ جاتی ہے۔۔

سوال یہ ہے کہ۔۔ محبوب عالم رحمۃ اللعالمین کون سی امت کے لیے آنسو بہاتے رہے۔۔ وہ کون سی مسلمان امت تھی؟ کیا واقعی ہم تھے؟ اے وقت کے شاہو! ہم کیسے دہائی دیں۔۔ جنگ کے میدان تنگ آ چکے ہیں لاشیں دیکھ دیکھ کر، لاشیں اٹھا اٹھا کر کندھے دل آنسو خود موت مانگ رہے ہین۔۔ کیونکہ مسلمانوں کے بچے ماں باپ کھو چکے، وہ ہوس کا نشانہ بن جاتے ہیں، یہودیوں کی لیبارٹریوں من ان پر تجربات کیے جاتےہیں۔۔ کتنا درد ھوتا ہوگا انھیں۔۔ کتنی چیخیں مارتے ہوں گے۔ کتنا بلاتے ہوں گے وہ اپنی ماؤ ں کو۔۔ بے حسی کے پیڑ اب پھل دینے لگے ہیں اور مسلمانوں نے ہی افسوس صد افسوس ان سفید چمڑی کے درختوں کی آبیاری کی۔۔ افسوس کہ یہ تباہی عربی و عجمی میں منتقل ہوگئی بجائے کہ یہ جنگ اسلام اور کفر کے مابین رہتی۔۔ ہائے یہ جنگ مسلموں کی تخت و تاج کے حصول پر ایک دوسرے کے خون میں سرخ ھو گئی ہے اور رُل گئے ہمارے معصوم، بے گناہ بلکتے سسکتے پھولوں جیسے بچے، قیمتی نوجوان، چھاؤں جیسے ماں باپ اور اللہ تعالی کے حسین تراشے انسان۔۔

یھاں دل پر قابو نہیں رھتا میرے۔ دل چاھتا ہے ایک نظم یہیں کہہ ڈالوں۔۔

کعبے سے ندا آتی نہیں اب۔۔

کہ اے مسلماں تو میرا ھے۔۔

حالانکہ لہو بہت پکارا۔۔ المدد، المدد۔۔

سہنے کی بھی اک عمر ھوتی ہے۔۔

پھرجسم موت کے درد سے سن ہو جاتا ہے۔۔

جسم خود کو اس ازیت کے حوالے کر دیتا ہے۔۔

جس پرصبر لکھا ہے۔

اس صبر پر جبر بڑھتا ہی جاتا ہے۔۔

بڑھتا ہی جاتا ہے۔۔ برھتا ہی جاتا ہے۔۔

ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔۔

آؤ سب رودالیاں بن کے روئیں۔۔

آؤ سب اپنے مُردوں پر بین کریں

یہ میتیں کچھ نھیں کر سکتیں۔۔

یہ میتیں مسلمانوں کے مُردہ ضمیروں کی ہیں

رودالی تو جھوٹا روتی ہے نا

اس کا مول بھی لیتی ہے نا۔۔

لیکن سوکھی بے حس آنکھوں کو۔۔

اپنوں کو اور دشمن کو۔۔

شرم دلا کر، ین کا دل دہلا کر رکھ دیتی ہے۔۔

سچا مسلم اُحد کے ارد گرد جا سویا تھا۔۔

ہندہ باقی رہ گئی ہے۔

کہاں سے آئیں محمد ص دوبارہ۔۔

کہاں ادا ہو پھرخطبہء حجۃ الوداع۔۔

کہاں دوبارہ مکہ فتح ھو اور وہ فاتح آئے۔۔

جو ہندہ جیسی بے ضمیر کو معاف کرے۔۔

قریش کے کالے دلوں کو معاف کرکے انصاف کرے۔۔

یہودیوں کے کالے کرتوتوں کو روکے۔۔

اب کہاں سے آئے وہ فاتح من المرسلین۔۔

ابھی تو مہدئی برحق کا بھی پتہ نہیں۔۔

اے مسلمانوں کے لہو تجھے بہنا ہوگا۔۔

شراب کے جام پی کر کب نظر آتا ھے تو!

اے مسلمانون کے بیش قیمت لہو!

تیرا سرخ رنگ رنگِ حُسین ع ہو چلا ہے۔۔

ہم تسلیم کر چکے ہیں کہ اب بھی کربلا کرب و بلا ہے۔۔

اِس لیئے تجھے بہنا ہوگا۔۔

اے بہتے لہو! برج خلیفہ دیکھ، کعبہ کی سر زمیں پر عریاں تہزیب کا وار دیکھ!

تجھے دعوتنامہ ملا ھو گا نا۔۔

ہاں ہاں عرب کے شاہوں نے سفیدیت کی انتہا کی ہے۔۔

یہی تو شفافیت ہے۔۔ دیکھ تو اس دعوت کو ٹھکرانا نہیں۔۔

بس اپنے رنگ میں سے سرخ خلیے نکال دے۔۔

حجاب، شرافت، شرم، لباس اونہہ! یہ کہی تھزیب ہے تیری؟

کھیل دیکھ، گیند بلا، اونٹ کی دوڑ، گھڑ دوڑ دیکھ۔۔

بچے عورتیں شہری زخمی ہیں۔۔ یہ کیا تُک ہے؟

ارے چھوڑ۔۔ تو صرف خون ہی تو ھے۔۔

اور وہ بھی مسلمانوں کے بچوں کا۔۔

مسلمان تو بچے ہیں، عقل کے کچے ہیں۔۔

انہیں جینے کا ڈھنگ کہاں، ارے جینے کا حق کہاں

اے خدا وقت قیامت جلدی لے آ۔۔ لے آ نا۔۔

کہ عروج اس کے سوا اور کوئی آس نھیں

کہ عروج مسلماں کی شہہ رگ سے بھتے لہو کے اور کوئی پاس نہیں