1. ہوم/
  2. کالمز/
  3. صائمہ عروج/
  4. ایک بادشاہ اور 10000 کا قبیلہ

ایک بادشاہ اور 10000 کا قبیلہ

ایک جاہل کو جنگل سے خزانہ ملا۔۔ اس نے بستی کے لوگوں کو بلایا اور اس بات پر راضی کر لیا کہ اگر اس کو بادشاہ بنایا جائے تو وہ اس خزانے مین سب کو حقدار ٹھہرائے گا۔۔

لوگوں نے سوچا پہلا بادشاہ تمام خوبیوں سے مرصع ایماندار اور منصف ہے لیکن ہماری حالت زار نہ بدلی۔۔

چلو اب کے اس نئے کو آزمائیں۔۔ پنچائیت ہوئی اور عوامی آواز کو روپ مل گیا۔۔

نئے بادشاہ کیا ہے، کون ہے، کیا کرنے والا ہے، کیا کرے گا کسی کو غرض نہ تھی۔۔ بس اس کے در سے ہر ایک کو ایک موتی ملا کرتا۔۔

اس نئے بادشاہ نے مردم شماری کروائی آبادی 10000 تھی

وہ روز 10000 موتی تیار رکھتا۔۔ ساتھ ہی ساتھ اس نے اپنے جھونپڑے کے قریب ہی اپنے محل کی بنیاد رکھ دی جہاں 1000 مزدور کام کرنے لگے، بادشاہ نے ان میں سے ہر ایک کی اجرت پہلے موتی کو ملا کر دو موتی کر دی۔۔

بادشاہ نے انتہائی چالاکی سے انتظام کیا اس نے موتی، خزانہ اور مزدور سب ہی ختم نہ ہونے دیے۔۔

آبادی ہمیشہ 10000 کے لگ بھگ ہی رہتی۔۔

ہوا یوں۔۔ کہ مزدوروں میں سے 3000 لوگ بادشاہ نے اپنی قربت میں خلوت تک آنے دیے۔۔ خطاب کیا آج سے تم میرے خاص ہو۔۔ سنو! اگر تم موتی زیادہ چاہتے ہو تو ان مزدوروں سے کام بھی لو، الزام لگاؤ، ان کی نفسیات سے کھیلو، ان کے بچوں کو مزدوری پر رکھو، پرانے مزدوروں کو کسی طرح موت کے گھاٹ اتارو، لہجہ میٹھا لیکن زہر آلود رہے، مزدوروں کی تعداد سات سو رہے اور آبادی بھی 10000 سے تجاوز نہ کرے۔۔ ووٹ اور ہمدرد بھی ہمارے رہیں اور عوام کو تعلیم ایسی مہیا کرو کہ ذہنی غلامی کی ان دیکھی زنجیر سے بندھے رہیں۔۔ انہیں یہ سوچنے کا وقت کبھی نہ ملے کہ حکمران جماعت کیا کر رہی ہے۔۔

بادشاہ کا یہ انتظام کامیاب ہوا، اس کا محل بن گیا کسی کو پرواہ نہیں تھی۔۔ 300 حکمران مددگاروں نے قریبی قبیلوں کو سرمایہ کاری کے مواقع دیے، بادشاہ کی بادشاہت چمکتی رہی، دولت بڑھتی رہی، عوام کو پتہ ہی نہ چلا، لیکن بادشاہ نے موتی دینا جاری رکھے۔

لوگوں نے کہا کتنا ایماندار بادشاہ ہے، ہم خوشحال ہو گئے، ہمارا کوئی کمانے والا مر بھی جائے موتی ملنا نہیں رکتے۔۔

بادشاہ نے بازار میں نرخ ایسے رکھے کہ لوگ موتی دے کر اشیا ئے ضرورت خریدتے اور بنیوں کی بدولت وہی موتی بادشاہ کے خزانے میں واپس چلا جاتا اور اگلی صبح پھر سے ہر فرد کو مل جاتا۔۔ اچانک لوگوں کو احساس ہونے لگا اموات زیادہ ہوتی ہیں، حکیم کی دوا کام نہیں کرتی، موتی سے جو غزا اور کپڑا پورا ہوتا ہے تو دوا نہیں لے سکتے اور دوا لیتے ہیں تو بھوک، فاقہ اور بیماری جان نہیں چھوڑتی۔۔ انہوں نے بادشاہ سے مطالبہ کر ڈالا ہمیں دو یا تین موتی روز دیے جائیں ایک موتی میں گزارہ مشکل ہے۔۔

بادشاہ نے خلاف توقع جلد ہی مطالبہ مان لیا۔۔ لیکن تعلیم میں زکوۃ خیرات کے لیے مخصوص اداروں کو متعارف کروایا گیا۔۔

"آدھا موتی خیرات کریں آپ کے مذہب کی شان ہے خیرات، حکومت آپ کی خیرات سے گھر بنائے گی، غربت دور کرے گی آپ تو خوشحال ہیں لیکن چونکہ آپ تین موتی لیتے ہیں تو بہت سے ایسے لوگ ہیں جو ابھی تک ایک موتی پر گزارہ کر رہے ہیں، آدھا موتی ان کی زندگی بدل دے گا"

لوگ غریب تھے اپنے جیسوں کا خیال تھا۔۔ لیکن یہ کیا۔۔ آدھا موتی تو بازار میں بکتا ہی نہیں تھا۔۔ لیکن اف اللہ کا خوف۔۔ کوئی بات نہیں لوگوں نے سوچا اور ایک مکمل موتی ہر ایک خیرات کرتا۔۔ حکومت کے ہرکارے خیرات سے بھرے ڈبے اٹھاتے اور حکومت کے خزانے میں انڈیل دیتے، آبادی اب بھی 10000 تھی۔۔

اب تین طبقے بن گئے۔ شاہی طبقہ، تنخواہ دار طبقہ اور کسمپرسی میں ڈوبا سفید پوش طبقہ۔۔

امسال بادشاہ کو ترکیب سوجھی، اب وہ تھک گیا تھا اس کی اولاد کئی بیٹے اور بیٹیاں تھیں۔۔ بڑے بیٹے کو حکمران بننا چاہیے۔۔ پھر آئندہ حکمران بھی اسی نسل اور خاندان سے ہو۔۔ اس نے قبیلے والوں کو بلایا۔۔ ان سے رائے لی۔۔ تنخواہ دار طبقے کا ایک حصہ چال سمجھا۔۔ آواز دی شرطیں مانو۔۔ پھر جو چاہے کرو۔۔

موتیوں کے ساتھ سونے اور چاندی کا ہمارے مطالبے کے مطابق اضافہ کرو کچھ اچھا دو گے تو تمہاری مرضی بھی مانیں گے۔۔

اب تقسیم ہوئی تنخواہ دار طبقہ حلال خوروں اور حرام کھانے والوں میں تقسیم ہوا۔۔ مذہب کا چرچا ہوا، نام نہاد علماء سامنے آئے لیکن ایک بڑی تعداد بادشاہ کی نسلی سیاست کو ماننے کو تیار نہ تھی۔۔

صبح چناؤ کا دن تھا۔۔ ارے یہ کیا؟ بادشاہ کا بیٹا بلا شرکت غیرے بادشاہ بن گیا؟

رات کوئی بک تو نہیں گیا۔۔ نہیں نہیں۔۔ علماء نے بیان داغا۔۔ ارے یاد کرو بادشاہ کے موتی۔۔ چھوڑو سب باتیں۔۔ کیا اعتراض کرتے ہو۔۔ خوشخبری سنو بادشاہ کا بیٹا پانچ موتی روز دے گا۔۔

اور سونے کی ڈھیلیاں، ایک طرف سے کوئی پکارا۔۔ اس کے لیے تعلیمی مقابلہ ہوگا جو نوکری کرے گا 300 کارخانے ہیں نوکریوں کے لیے۔۔

چلو چلو سب کو تعلیم دلوائیں اور مقابلوں میں حصہ لیں۔۔ پانچ موتیوں سے زندگی خوشحال ہوگی۔۔

سال کے آخر میں مہنگائی کے طوفان سے لڑتے ہوئے 2000 ضعیف مر گئے لیکن جوان اور بچے ملا کر 10000 پورے تھے۔۔

قومی خزانے پر بوجھ نہ تھا۔۔ کیونکہ بچے کماتے نہیں تھے۔۔ جوان کسی خیرات سے پڑھ رہے تھے اور تعلیمی مقابلے۔۔ ان میں سفارشی بھرتی ہوتے تھے بظاہر وہ ایماندار اور لائق لوگ کہہ کر پکارے گئے۔۔ باقی بے روزگار خودکشی کرنے لگے۔۔

پانچ موتی۔۔ یہ کم کیوں پڑ گئے۔۔ قبیلہ پہلے سے زیادہ خوشحال تھا، جھونپڑیاں پکے گھر بن چکی تھیں، لیکن۔۔

یہ مانگنے والے فقیر۔۔ چہ چہ چہ۔۔ یہ تو اس قبیلے کے تسلیم ہی نہیں کیے جا رہے تھے۔۔ اے خوشحالو!

ہمیں پانچ موتی کی اجرت سے تو پہچان لو۔۔ تن میلا ہے بدن ننگا ہے، پاؤں میں چھالے ہیں۔۔ ہم تمہیں میں سے ہیں۔۔ بادشاہ کے بیٹے نے پنچائت بلائی۔۔ اعلان ہوا۔۔ یہ غریب لوگ جنات ہیں ان کا مر جان بہتر ہے۔۔ انہیں زندہ جلا دو۔۔ اپنی دھرتی کو پاک کرو۔۔

ہمارے 10000 خوشحال لوگ تو پورے ہیں۔۔ یہ جنات، بھوت ہم میں سے کیسے ہو سکتے ہیں۔۔

پھر آگ دھواں اور چیخیں تھیں۔۔

10000 خوشحال زندہ تھے۔۔ کسی نہ کسی طرح اور اللہ دیکھ رہا تھا۔۔