1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سلیم صافی/
  4. بی آر ٹی کا عذاب

بی آر ٹی کا عذاب

کیا پی ٹی آئی کے منشور میں تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد پشاور میں بی آر ٹی جیسا میگا پروجیکٹ شروع کیا جائے گا؟ نہیں، قطعاً نہیں۔ بلکہ پی ٹی آئی کے منشور میں میگا پروجیکٹ کی مخالفت کر کے صحت، تعلیم اور ٹرانسپورٹیشن کے ہمہ گیر اور چھوٹے منصوبوں پر زور دیا گیا تھا۔

کیا عمران خان صاحب یا پرویز خٹک صاحب نے انتخابی مہم کے دوران ذاتی طور پر کوئی وعدہ کیا تھا کہ حکومت میں آنے کے بعد وہ لاہور کے طرز پر پشاور میں میٹرو جیسا بڑا ٹریفک منصوبہ بنائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ انتخابی مہم کے دوران دونوں نے شہباز شریف کے میٹروز کے منصوبوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا، انہیں پنجاب اور پاکستان کے عوام کے ساتھ ظلم قرار دیا تھا، اسے ضرورت نہیں بلکہ خزانے پر بوجھ اور میگا کرپشن کا وسیلہ قرار دیا تھا۔ صرف انتخابی مہم نہیں بلکہ اقتدار میں آنے کے بعد بھی صوبے کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے پرویز خٹک صاحب چار سال تک (بی آرٹی منصوبے کے افتتاح سے چند روز قبل تک) میگا پروجیکٹس کے شدید مخالف رہے۔ کیا خیبر پختونخوا اسمبلی نے یا پھر پشاور کی ضلعی حکومت نے بی آر ٹی جیسے منصوبے کا مطالبہ کیا تھا؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اس معاملے کو نہ صوبائی اسمبلی میں لایا گیا اور نہ پشاور کی مقامی حکومت کو آن بورڈ لیا گیا۔ کیا حکمران جماعت یعنی پی ٹی آئی کی صوبائی تنظیم نے اس کا مطالبہ کیا تھا؟ ہر گز نہیں۔ پارٹی کے کسی فورم پر اس کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ نجی محفلوں میں پارٹی رہنمائوں کی اکثریت اس کی مخالفت کرتی رہی۔ کیا صوبائی کابینہ نے اس بی آرٹی کا مطالبہ کیا تھا؟ ہر گز نہیں بلکہ یہ صوبے کی تاریخ کا واحد بڑا پروجیکٹ تھا کہ جس پر کام پہلے شروع کیا گیا اور کابینہ سے اس کی منظوری بعد میں لی گئی۔ کیا پرویز خٹک حکومت کی متعلقہ وزارت یعنی وزارت بلدیات نے بی آرٹی کا منصوبہ تجویز کیا تھا؟ ہر گز نہیں۔ اس وقت وزیر بلدیات عنایت اللہ جو سینئر وزیر بھی تھے، نے اس کی بھرپور مخالفت کی تھی اور جب وہ کسی صورت اس پر راضی نہیں ہو رہے تھے تو پرویز خٹک صاحب نے بی آر ٹی کا منصوبہ ان کی وزارت سے لے کر وزارت ٹرانسپورٹ کے ماتحت کر دیا اور پھر جب نئے انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے شہرام ترکئی وزیر بلدیات بنے تو یہ منصوبہ وزارت ٹرانسپورٹ سے واپس لے کر متعلقہ وزارت یعنی وزارت بلدیات کی نگرانی میں دے دیا گیا۔

2013 میں وزیر بلدیات بننے کے بعد عنایت اللہ خان نے پشاور کی سڑکوں کی کشادگی اور بیوٹیفیکیشن کا ایک جامع منصوبہ کئی ارب روپے کی لاگت سے شروع کیا تھا۔ وہ منصوبہ عین اس سال مکمل ہوا جس سال پی ٹی آئی حکومت نے بی آر ٹی کا منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبہ سے اندورون شہر نہ صرف ٹریفک کا مسئلہ بڑی حد تک حل ہوگیا تھا بلکہ پشاور کی خوبصورتی میں بھی اضافہ ہو گیا تھا۔ اس وقت تک پی ٹی آئی کی حکومت سب سے زیادہ جس منصوبے کا چرچا کر رہی تھی وہ یہی منصوبہ تھا اور ویڈیوز بنا کر بیوٹیفیکیشن کے اس منصوبے کو بھرپور طریقے سے کیش بھی کیا جا رہا تھا۔ عنایت اللہ خان اس وجہ سے بھی بی آرٹی منصوبے کی مخالفت کر رہے تھے کہ اس سے نہ صرف سب کچھ درہم برہم ہوجائے گا بلکہ غریب صوبے کے اربوں روپے بھی ضائع ہو جائیں گے۔ یہ امر مضحکہ خیز ہے کہ پشاور کی بیوٹیفیکشن کا منصوبہ خود پی ٹی آئی حکومت کا شروع کردہ تھا اور اس کی تکمیل پر اسے غارت کرنے کے لئے بی آر ٹی کا منصوبہ بھی اسی حکومت نے شروع کیا۔

تو کیا پشاور کی ٹریفک کے مسئلے کو دائمی طور پر حل کرنے کا بی آر ٹی کے سوا کوئی متبادل نہیں تھا؟ ایسا ہر گز نہیں تھا۔ بلکہ اس سے قبل ماہرین پہلے سے موجود ریلوے ٹریک کے ساتھ دونوں طرف سڑک کی تعمیر اور رنگ روڈ کی تکمیل کے منصوبے سامنے لاچکے تھے اور ماضی کی حکومتیں ان سے متعلق کچھ کام بھی کرچکی تھیں۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ پشاور کا شہر بنیادی طور پر جی ٹی روڈ کے دونوں طرف تعمیر ہوا ہے۔ انگریز کے دور سے ریل کی پٹری لنڈی کوتل تک جا چکی ہے جس کا استعمال چند سالوں سے نہیں ہو رہا۔ اس پٹری کے دونوں جانب سرکاری زمین بھی میسر ہے۔ یوں سردار مہتاب احمد خان کے دور سے ماہرین یہ منصوبہ تجویز کر چکے تھے کہ اس پٹری کے دونوں جانب سڑک تعمیر کر کے جی ٹی روڈ پر رش کم کیا جائے۔ رنگ روڈ اور ریلوے ٹریک کے آپشن کی صورت میں پشاور صدر، جی ٹی روڈ اور یونیورسٹی روڈ پر کاروبار بھی تباہ نہ ہوتا کیونکہ ایک اندازے کے مطابق بی آر ٹی منصوبے کی وجہ سے پشاور کے دکانداروں کو مجموعی طور پر 2 سو ارب روپے کا نقصان ہوا ہے جبکہ نفسیاتی اور صحت کے وہ مسائل بھی پیدا نہ ہوتے جو بی آر ٹی کی وجہ سے پیدا ہوئے۔ کیا بی آر ٹی پشاور کے منصوبے میں میرٹ سے کام لیا گیا اور پنجاب کے مقابلے میں یہاں کم خرچ سے بڑا منصوبہ بنایا گیا؟ ہر گز نہیں بلکہ معاملہ یکسر الٹ ہے۔ یہاں سہولتیں کم اور خرچہ زیادہ ہے۔ جس رقم میں ٹھیکہ دیا گیا، اس پر صوبائی حکومت کی طرف سے ٹھیکیدار کو اضافی 25 فیصد رقم یہ کہہ کر ادا کی گئی کہ وہ اس منصوبے کو کم وقت یعنی چھ ماہ میں مکمل کریں گے۔ 6 تو کیا 17ماہ ہو گئے لیکن منصوبہ مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا۔ توکیا خیبر پختونخوا حکومت کے پاس اپنے وسائل زیادہ تھے کہ اس نے اس طرح کے عیاشانہ پروجیکٹ کا آغاز کیا۔ نہیں اس کا جواب بھی نفی میں ہے بلکہ پہلے ایشین ڈویلپمنٹ بینک پھر فرانس کے ایک بینک اربوں روپے کا قرضہ لیا گیا۔ پھر سوال یہ ہے کہ آخر عمران خان اور پرویز خٹک نے اپنے موقف کے بالکل برعکس بی آر ٹی کا پنگا کیوں لیا؟ اس کا بڑی حد تک جواب خود بخود سامنے آرہا ہے لیکن غور سے دیکھا جائے تو عمران خان صاحب خود اس سوال کا جواب کئی مرتبہ دے چکے ہیں کہ میگا پروجیکٹس صرف اس لئے شروع کئے جا تے ہیں کہ ان میں میگا کرپشن کی جا سکے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا محمود خان صاحب کی حکومت اس منصوبے کے نقائص کو دور کر سکے گی۔ بدقسمتی سے اس سوال کا جواب بھی نفی میں ہے بلکہ ان کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد بھی وہی حماقتیں ہو رہی ہیں جو پرویز خٹک صاحب کے دور میں ہوتی رہیں۔ اب تو مسئلہ یہ بھی ہے کہ وزیر بلدیات شہرام خان ترکئی ہیںجن کی وزیراعلیٰ سے بنتی ہے اور نہ وزیراعلیٰ ان کو کسی کام کے لئے مجبور کر سکتے ہیں۔ بی آر ٹی مکمل ہوئی ہے اور نہ آئندہ دو تین ماہ میں مکمل ہوتی نظر آتی ہے اس کی ایک بڑی وجہ اب وزیراعلیٰ اور وزیر بلدیات شہرام خان کے جھگڑے بھی ہیں۔ وزیراعلیٰ کہہ رہے ہیں کہ بی آرٹی کے پروجیکٹ ڈائریکٹر نے ان سے جھوٹ بولا اور جب ان کو ہٹا دیا گیا تو شہرام ترکئی نے میڈیا میں ڈی جی کی تبدیلی کی کھل کرمخالفت کی۔ لیکن مسئلہ صرف یہ نہیں کہ پشاور کا بی آر ٹی مکمل ہونے کا نام نہیں لے رہا بلکہ اب مسئلے پر مسئلہ یہ ہے کہ تکمیل کے بعد بھی اس سے پشاور کے ٹریفک کا مسئلہ حل نہیں بلکہ مزید گمبھیر ہو جائے گا۔ ماہرین تو پہلے بھی یہ دہائی دے رہے تھے لیکن اب پی ٹی آئی کی حکومت کی انسپکشن ٹیم نے بھی اپنی رپورٹ میں واضح کر دیا ہے کہ اس کی تکمیل کی صورت میں ٹریفک کا مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ یہ ہے وہ تبدیلی جو پشاور میں آگئی ہے اور اب الحمد للہ باقی ملک میں آرہی ہے۔