ہوشیار لوگ اپنے دوست اور بے وقوف اپنے دشمن بڑھانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ جنگ اور کشیدگی کے دنوں میں تو خصوصی طور پر عقلمند لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اصل دشمن سے نمٹنے کیلئے دور کے دشمنوں کو کم سے کم یا کم ازکم خاموش رکھیں لیکن ہم ہیں کہ دور کے دشمنوں کو بھی اپنے اصل حریف یعنی بھارت کی طرف دھکیلنے کے جتن کرتے رہتے ہیں۔ بھارت کے ساتھ کشیدگی سے قبل ہمیں بتایا جارہا تھا کہ چونکہ ہم طالبان کے معاملے میں مدد کررہے ہیں اس لئے امریکہ ان دنوں ہم سے بے حد خوش ہے اور ہمیں ایسا نظر بھی آرہا ہے کہ کارگل جنگ کی طرح بھار ت کے ساتھ حالیہ کشیدگی کو کم کرنے میں بھی امریکہ نے بنیادی کردار ادا کیالیکن ہمیں یہ بتایا جارہا ہے کہ بھارت کی حالیہ مہم جوئی کے پیچھے امریکہ کا بھی ہاتھ تھا۔ گویا ہم نے امریکہ کو بھارت کی طرف دھکیلنے کی خوب کوشش کی لیکن شکر ہے کہ امریکہ اپنی مجبوریوں کی وجہ سے اس طرف نہیں گیا۔ اسی طرح ہمارے مبینہ وزیر اعظم صاحب نے میڈیا پرسنز کو پٹی پڑھائی کہ بھارت کی مہم جوئی میں اسرائیل بھی اس کے ساتھ تھا۔ گویا ہم اسرائیل کو بھی دعوت دیتے رہے کہ وہ اپنے دوست بھارت کی حمایت میں کود پڑے۔ کچھ لوگ تو یہ سازشی تھیوری بھی پھیلاتے رہے کہ ایران بھی بھارت کی حمایت میں پاکستان پر حملے کا منصوبہ بنا چکا تھا لیکن بارشوں کی وجہ سے ایسا نہ ہوسکا حالانکہ ایرانیوں جیسے زیرک لوگ کبھی اس حماقت کا تصوربھی نہیں کرسکتے۔ اسی طرح ہمیں ایک عرصے سے اس ملک میں یہ پٹی پڑھائی جارہی ہے کہ افغانستان دشمن یا پھر کم ازکم دشمن بھارت کا ساتھی ہے جبکہ ہم سالوں سے یہ عرض کررہے ہیں کہ افغانستان سعودی عرب اور ترکی کی طرح دوست نہ سہی لیکن دشمن بھی نہیں۔ پاک افغان تعلق کو میں نے فرسٹ کزنز کے تعلق جسے پشتو میں تربور کہتے ہیں کا نام دیا ہے جو کبھی ایک دوسرے سے راضی نہیں رہتے لیکن دشمن بھی نہیں بن سکتے۔ ایک دوسرے کے خلاف ان کی توتو میں ہمہ وقت جاری رہتی ہے لیکن جب بھی بیرونی دشمن کا حملہ ہوتا ہے تو وہ ایک ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک کبھی پاکستان اور افغانستان کے تعلقات مثالی نہیں رہے لیکن پینسٹھ کی پاک بھارت جنگ ہو یا اکہتر کی، ہر موقع پر افغانستان نے مغربی سرحد پر کوئی چھیڑخانی نہیں کی۔ سابق صدر حامد کرزئی ہمہ وقت پاکستان پر برہم رہتے ہیں لیکن جب سلالہ واقعہ کے بعد امریکہ کے ساتھ پاکستان کی کشیدگی بڑھی تو اسی حامد کرزئی نے میرے ساتھ انٹرویو میں یہ بڑا اعلان کر ڈالا کہ اگر پاکستان اور امریکہ کی جنگ ہوئی تو افغانستان اپنے پاکستانی بھائیوں کا ساتھ دے گا۔ بھارت کے ساتھ حالیہ کشیدگی بھی ایسے وقت میں شروع ہوئی جب افغان صدر اشرف غنی پاکستان سے شدید ناراض ہیں لیکن اب ایک بار پھر افغان حکومت کی طرف سے پاکستان کو پیغام دیا گیا کہ وہ مغربی سرحد کی طرف سے بالکل مطمئن رہے۔ فرانس جیسے ممالک نے بھارت کے حق میں بیانات دئیے لیکن افغان حکومت کی طرف سے ایک لفظ بھی ایسا سامنے نہیں آیا جس سے بھارت کے ساتھ ہمدردی یا پاکستان کی دشمنی کا تاثر ملتا ہو۔
حسب سابق نازک موقع پر افغانستان نے بھارت کا ساتھ نہیں دیا اور ہم سب مشرقی سرحد پر کامیابی کا جشن منانے میں مصروف ہیں لیکن مغربی سرحد کی صورت حال پھر بھی قابل اطمینان نہیں بلکہ تشویشناک بھی ہے۔ پاکستان میں فاتحانہ انداز میں جشن منایا جارہا ہے کہ افغان مسئلہ حل ہورہا ہے لیکن جاننے والے جانتے ہیں کہ ہنوز دلی دور است۔ امریکہ اور طالبان کی بات بنتی نظرآرہی ہے لیکن بین الافغان مفاہمت سردست بہت مشکل دکھائی دیتی ہے۔ ابھی امریکہ اور طالبان کی صلح ہوئی نہیں لیکن پاکستان اور افغان طالبان کے تعلقات میں خرابی کے آثار ظاہر ہونے لگے ہیں۔ عمران احمد خان نیازی کی خواہش کی تکمیل کے لئے اسلام آباد میں طالبان کی میٹنگ کی احمقانہ کوشش اور اس سے طالبان کی معذرت کے بعد تو کشیدگی کی سی کیفیت پیدا ہوگئی۔ اب اگر طالبان اور امریکہ کی ڈیل ہوجاتی ہے اور بین الافغان مفاہمت نہیں ہوتی تو یہ صورت حال افغانستان اور پاکستان دونوں کے لئے تباہ کن ہوگی لیکن اگر پاکستان کے ساتھ طالبان کے تعلقات بھی خراب ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں توپاکستان کے لئے نقصان مزید کئی گنا بڑھ جائے گا۔ علاوہ ازیں سابقہ فاٹا کی حالت بعض حوالوں سے تشویشناک بنتی ہوتی جارہی ہے۔ پی ٹی ایم کا مسئلہ حل ہونے کا نام نہیں لے رہا بلکہ حکومت جس بے ڈھنگے طریقے سے اس سے نمٹنے کی کوشش کررہی ہے اس سے یہ مسئلہ حل ہونے کے بجائے مزید گھمبیر ہوتا جارہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل پی ٹی ایم سے مذاکرات کے لئے قبائلی اضلاع کے پارلیمنٹیرینز کی جو کمیٹی بنائی گئی ہے، وہ مسئلے کو حل کرنے کی رتی بھر صلاحیت نہیں رکھتی اور میں ابھی سے لکھ کر دیتا ہوں کہ یہ کمیٹی معاملے کو مزید خراب کرےگی۔ دوسری طرف تحریک انصاف کی حکومت فاٹا کے انضمام کے معاملے کا جوبرا حشر کررہی ہے، اس کی وجہ سے اس کے ثمرات تو سامنے نہیں آرہے ہیں اور الٹا ایک نئے بحران کے جنم لینے کا خدشہ ہے۔ وعدے کے مطابق وفاقی حکومت نے فاٹا انضمام کے لئے سالانہ ایک سو دس ارب روپے فراہم کرنے تھے اور سرتاج عزیز کمیٹی نے اس کے لئے پورا روڈ میپ بھی بنا دیا تھا لیکن امسال کے دوران نیازی حکومت نے اس مد میں چند ارب روپے بھی نہیں دئیے۔ انضمام تو دور کی بات، آپریشنز کے متاثرہ آئی ڈی پیز کی بحالی کے لئے بھی فنڈز میسر نہیں۔ خیبر پختونخوا پر محمود خان کی صورت میں ایک اور طرح کے عثمان بزدار مسلط کئے گئے ہیں جن کا اپنے وزراء پر کنٹرول ہے اور نہ وہ وفاقی حکومت سے فنڈز لینے اور خرچ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آئینی ترمیم کے بعد قبائلی علاقوں کے چیف ایگزیکٹو وزیراعلیٰ بن گئے ہیں لیکن ان کو اپنے وزرا اور بیوروکریٹ دل سے لیڈر نہیں مان رہے ہیں کجا کہ وہ قبائلی اضلاع تک اپنا کنٹرول دراز کرسکیں۔ قبائلی علاقوں کے حوالے سے گورنر شاہ فرمان کافی متحرک نظر آتے ہیں اور ان کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا، یعنی پولیس اور عدلیہ کے نظام کو وہاں تک توسیع دینا، وہ انہوں نے مکمل بھی کیا لیکن ان کے بارے میں روز وزیراعلیٰ اور وزرا ء شکایت لگاتے ہیں کہ وہ صوبائی حکومت کے کام میں مداخلت کررہے ہیں۔ اسی طرح گورنر حسب وعدہ بڑی حدتک لیویز اور خاصہ داروں کی نوکریاں بچانے اور ان کو پولیس سے منسلک کرنے کےلئے لائحہ عمل بنانے میں بھی کامیاب ہوگئے۔ اسی طرح قبائلی علاقوں کے انضمام کے لئے خشت اول کی حیثیت صوبائی اسمبلی کے انتخابات رکھتے ہیں۔ اس لئے اے این پی جیسی جماعتوں اور ٹرائبل یوتھ جرگہ کا مطالبہ رہا کہ قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات عام انتخابات کے ساتھ کرائے جائیں لیکن مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کی قیادت کی وجہ سےاس وقت ایسا نہ ہوسکا۔ انضمام کے عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات اس لئے ضروری ہیں کہ جب وہاں کے منتخب نمائندے صوبائی اسمبلی میں بیٹھ جائیں گے اور ان میں سے کچھ وزیر مشیر ہوںگے تو وہ اپنے علاقوں تک ریاستی رٹ اور وسائل منتقل کرنے کے لئے زور لگائیں گے لیکن بدقسمتی سے اب صوبائی حکومت اور قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایم این ایز اور سینیٹرز صوبائی اسمبلی کے انتخابات کی راہ میں روڑے اٹکارہے ہیں۔ صوبائی حکومت کو ڈر ہے کہ قبائلی اضلاع سے مخالف جماعتوں کے ایم پی ایز کے منتخب ہوجانے کی صورت میں کہیں اسمبلی کے اندر ان کی موجودہ واضح اکثریت متاثر نہ ہوجبکہ ایم این ایز اور سینیٹرز سوچتے ہیں کہ ایم پی ایز کے آنے کی صورت میں ان کے حلقوں میں ان کی چوہدراہٹ میں دیگر شریک سامنے آجائیں گے۔ اس لئے وہ وفاقی وزیر پیرزادہ نورالحق قادری کی قیادت میں صوبائی سیٹوں میں اضافے کی آڑ لے کر صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ملتوی کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے پی ٹی آئی کے سرپرستوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ جلدازجلد صوبائی اسمبلی کے انتخابات منعقد کروا کر سابقہ فاٹا کے انضمام کے عمل کو مزید ناکامی سے بچا ئیں اور وفاقی وزارت خزانہ کو مجبور کریں کہ وہ پوری ملکی سیاسی قیادت کے وعدے کے مطابق قبائلی اضلاع کے لئے کم ازکم سو ارب روپے کی فنڈ کی فراہمی کو یقینی بنائے۔