1. ہوم/
  2. مہمان کالم/
  3. سلیم صافی/
  4. ماں جیسی ریاست

ماں جیسی ریاست

باپ پولیس میں معمولی افسر تھا جبکہ ماں اسکول میں ملازمہ۔ شوہر ٹی وی اینکر ہیں۔ دور طالب علمی میں لیبر پارٹی کی سیاست میں دلچسپی لینے لگیں۔ کمیونیکیشن اسٹڈیز اور سیاست میں بیچلر کی ڈگری لی۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وزیراعظم ہائوس میں بطور ریسرچر کام کیا۔ کچھ عرصہ نیویارک میں ملازمت کی۔ پھر برطانیہ آئیں اور یہاں کے وزیراعظم ٹونی بلیر کی ایڈوائزری ٹیم میں ملازمت کی۔ 2008 میں وطن واپس لوٹیں اور پارٹی کے یوتھ ونگ کی لیڈر بنیں۔ یہاں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر ممبر پارلیمنٹ بنیں۔ اگست 2017 میں لیڈر آف دی اپوزیشن بنیں۔ انہوں نے قیادت سنبھالی تو لیبر پارٹی پہلے کے مقابلے میں بہت مقبول ہوئی لیکن اسی سال ہونے والے انتخابات میں پھر بھی واضح اکثریت حاصل نہ کر سکی۔ بہت ہی معمولی اکثریت کے ساتھ جیسنڈا آرڈرن گرین پارٹی کے تعاون سے کولیشن حکومت کی کم عمر ترین وزیراعظم بن گئیں۔ ایک ایسی وزیراعظم جن کی تعریفیں آج صرف ان کے ملک کے شہری اور ان کے ہم مذہب عیسائی ہی نہیں بلکہ پاکستان سے لے کر عرب ممالک کے عوام اور حکمران مل کر کر رہے ہیں۔ بلکہ آج سروے کرایا جائے تو بلامبالغہ یہ نوجوان عیسائی خاتون دنیا کی مقبول ترین سیاستدان ہوں گی۔ مقبولیت اپنی جگہ لیکن ان کا اصل کارنامہ یہ ہے کہ نائن الیون کے آگے پیچھے سیموئل ہٹنگٹن، القاعدہ، داعش، صدر بش اور ڈونلڈ ٹرمپ جیسے لوگوں نے مذہبی اور نسلی بنیادوں پر نفرت، تشدد اور تقسیم کے جس بیانیے کو رائج کیا تھا، اس کے جواب میں عمل کی صورت میں یہ خاتون پہلی مرتبہ ایک جوابی بیانیہ لے آئی ہیں۔ ایک ایسا بیانیہ جو محبت، باہمی احترام اور پرامن بقائے باہمی کی سوچ پر مبنی ہے۔ گویا ان لوگوں نے اگر منفی انداز میں تاریخ کے دھارے کو بدلا تو اس چھوٹے سے ملک کی نوجوان اور خاتون وزیراعظم نے اسے مثبت جانب بدلنے کی بنیاد رکھ دی۔

دنیا میں تشدد، نفرت اور تعصب کی لہر کو بھی حادثات نے جنم دیا اور جیسنڈا آرڈرن بھی اپنے ملک میں ہونے والے ایک المناک حادثے کے نتیجے میں عالمی افق پر نمودار ہوئیں لیکن انہوں نے یہ موقف حادثاتی طور پر نہیں اپنایا۔ وہ پہلے سے منفرد خیالات اور کردار کی حامل تھیں۔ وہ اپنے آپ کو سوشل ڈیموکریٹ اور ترقی پسند کہتی ہیں، جو کیپٹل ازم کو ایک ناکام نظام سمجھتی ہیں۔ وہ انسانی آزادیوں پر انتہا کی حد تک یقین رکھتی ہیں۔ وزیراعظم بننے کے چند روز بعد جب امریکی صدر ٹرمپ نے یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کے لئے اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کا اعلان کیا تو جیسنڈا آرڈرن نے اقوام متحدہ کے فورم پر اس کی مخالفت کی۔ اسی طرح عیسائی ہو کر بھی انہوں نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف مظالم کی نہ صرف بھرپور مذمت کی بلکہ خود میانمار کی لیڈر آن سان سوچی سے ملیں اور روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو ختم کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ اسی طرح وہ چین کی ریاست سنکیانگ میں یوغر مسلمانوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے حکومتی سلوک کی بھی شدید ناقد ہیں لیکن ان کی اصل قائدانہ صلاحیتیں اس وقت سامنے آئیں جب نسلی تعصب کے شکار ایک وحشی نسل پرست عیسائی نے نیوزی لینڈ کی ایک مسجد میں پچاس بے گناہ مسلمانوں کو لقمہ اجل بنا کر نفرت اور تشدد کی نئی آگ بھڑکانے کی کوشش کی۔ اس واقعہ کے ہوتے ہی جیسنڈا آرڈرن نے شہید مسلمانوں اور ان کے لواحقین کو اپنے جسم کا حصہ اور اپنے ہم مذہب جنونی قاتل کو ٖغیر اور دہشت گرد قرار دے دیا۔ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انہوں نے شلوار قمیص پہن کر سر پر دوپٹہ اوڑھ لیا اور متاثرہ مسلمانوں کے مرد و خواتین کو ایسے گلے لگانے لگیں کہ جیسے ایک ماں اپنی اولاد کو لگاتی ہے۔ دس دن سے زائد کا وقت گزر گیا لیکن وہ اب تک اسی طرح مسلمانوں کے لباس میں نظر آرہی ہیں۔ وہ السلام و علیکم اور قرآنی آیات سے گفتگو کا آغاز کرتی اور تقریروں میں احادیث سناتی ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انہوں نے پارلیمنٹ کے اجلاس کی کارروائی تلاوت کلام پاک سے شروع کی اور تلاوت کرنے کی سعادت ایک پاکستانی عالم دین کو بخش دی۔ مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے انہوں نے عیسائی، یہودی، بدھ مت اور دیگر مذاہب کے مذہبی پیشوائوں کو پارلیمنٹ میں بلایا جو مسلمان عالم کی قیادت میں وہاں داخل ہوئے۔ اسی جذبے کے تحت گزشتہ جمعہ کو اذان تمام سرکاری اور نجی ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلوں سے لائیو نشر کی گئی۔ پارلیمنٹ کے فلور پر انہوں نے قاتل کو دہشت گرد کا خطاب دیتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ زندگی بھر اس شخص کا نام اپنی زبان پر نہیں لائیں گی بلکہ اسے صرف اور صرف دہشت گرد پکاریں گی۔ مستقبل میں اس قسم کے واقعات کے سدباب کے لئے وہ قانونی اور انتظامی اقدامات بھی اٹھانے لگی ہیں۔ ملک میں خودکار ہتھیار رکھنے پر پابندی کا قانون بنایا جا رہا ہے جبکہ ٹویٹر اور فیس بک کی انتظامیہ سے رابطہ کر کے ملک میں متعصبانہ مواد کے تدارک کے لئے اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔ اپنی محبوب وزیراعظم کی دیکھا دیکھی نیوزی لینڈ کے عوام بھی متاثرہ مسلمان کمیونٹی کے ساتھ یکجہتی کے لئے امڈ آئے۔ بچے، بوڑھے، جوان سب کرائسٹ چرچ میں واقعہ مسجد کی طرف چل پڑے۔ وہاں پھولوں کے انبار لگا دئیے۔ سینکڑوں عیسائی خواتین مسلمانوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے مسلمان خواتین کے لباس زیب تن کرتی نظر آئیں۔ اسی جذبے کے تحت نماز کے اوقات میں غیر مسلم مساجد کے باہر پہرہ دینے لگے۔ شہدا کی نماز جنازہ کے موقع پر اپنی وزیراعظم کی اقتدا میں لاکھوں نیوزی لینڈین جمع ہو گئے اور مسلمانوں سے بڑھ کر غیر مسلم غمزدہ نظر آرہے تھے۔ اور تو اور مقامی ٹی وی اینکرز خواتین بھی گزشتہ جمعہ کو مسلمان خواتین کے لباس میں نظر آئیں۔ مختصر یہ کہ وزیراعظم اور ان کی حکومت نے وہاں رہنے والے مسلمانوں کی دلجوئی کے لئے وہ سب کچھ کیا جو ممکن تھا اور یہی وجہ ہے کہ جیسنڈا آرڈرن اپنے ملک ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے مسلمانوں کی بھی ہیرو بن گئیں اور مسلمان ممالک کے سربراہان ان کو شاباش دینے پر مجبور ہوئے اور تو اور پاکستان کے دینی حلقوں میں بھی ان کی ستائش ہونے لگی۔

لیکن سوال یہ ہے کہ جو مسلمان حکمران جیسنڈا آرڈرن کو شاباش دے رہے ہیں، وہ اپنے ملک میں ان جیسا کیوں نہیں بن سکتے۔ جیسنڈا آرڈرن کو شاباش کے لئے فون کرنے والے عمران خان صاحب تو آج تک سانحہ ساہیوال کے متاثرین کو گلے نہیں لگا سکے اور متروکہ وقف املاک کے لئے ہندو سربراہ تک مقرر نہیں کر سکے۔ ہماری حالت تو یہ ہے کہ ہم دہشت گرد کو دہشت گرد بھی نہیں کہتے اور دہشت گردی کے واقعات کے بعد جو مذمتی بیان بھی آتے ہیں ان کے ساتھ بھی اگر مگر لگا ہوتا ہے۔ ذرا سوچئے! اگر نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کرائسٹ چرچ کے واقعہ کے بعد ایسا بیان دیتیں کہ میں اس کی مذمت کرتی ہوں لیکن مسلمانوں کو بھی اپنے رویے پر نظرثانی کرنا چاہئے تو ہمارا ردعمل کیا ہوتا؟۔ ذرا سوچئے! اگر یہاں کی اقلیتوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لئے پاکستانی ٹی وی اینکرز نیوزی لینڈ کے اینکرز کی طرح کسی ایک دن ان اقلیتوں کا لباس پہن لیں یا ان کا حلیہ اپنا لیں تو ہمارے ان قدامت پرست حلقوں کا کیا رد عمل ہو گا، جو اس وقت نیوزی لینڈ کی وزیراعظم کو شاباش دے رہے ہیں۔