2014 کے اوائل کا ذکر ہے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف طالبان سے مذاکرات کا آغاز کرنا چاہتے تھے۔ محترم بھائی میجر(ر) محمد عامر اور مجھے اس سلسلے میں طلب کررکھا تھا۔ اتفاق سے اس روز جنرل (ر) پرویز مشرف کو عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔ صبح سے افواہ گرم تھی کہ آج جنرل صاحب کو ہتھکڑی لگا کر عدالت لایا جائے گا۔ میں چونکہ پرویز مشرف کے خلاف مقدمے کے حق میں بھی نہیں تھا اور اس سے قبل کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں تسلسل کے ساتھ اس رائے کا اظہار کرچکا تھا کہ حکومت معاملے کو منطقی انجام تک پہنچا سکتی ہے اور نہ اس کے نتائج سہہ سکتی ہے، اس لئے گپ شپ میں پرویز مشرف کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ میں نے میاں نوازشریف سے عرض کیا کہ آج افواہ پھیلی ہے کہ جنرل صاحب کو ہتھکڑی پہنائی جائے گی اور اگر ایسا ہوا تو یہ بہت برا ہوگا۔ آپ کے مخالف ضرور ہیں لیکن وہ آرمی چیف بھی رہے ہیں۔ اس لئے برائے مہربانی اس بات کو یقینی بنائیں کہ انہیں ہتھکڑی نہ لگے۔ میاں صاحب مسکرائے اور مجھ پر طنز کرتے ہوئے میجر عامر سے کہنے لگے کہ میجر صاحب! فوجی آپ ہیں لیکن آج کل صافی صاحب کو جنرل مشرف کی بہت فکر ہے تاہم میجر صاحب نے بھی میری بات کی تائید کی اور میاں صاحب سے کہا کہ بعض اوقات نیچے کے لوگ گڑبڑ کرلیتے ہیں۔ اس لئے سلیم کی تشویش بجا ہے۔ ان کی بات سنتے ہی میاں صاحب نے سامنے بیٹھے فواد حسن فواد سے کہا کہ ذرا پتہ کرکے رپورٹ دیں۔ فواد حسن فواد باہرنکلے اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر وزیراعظم کو رپورٹ دی کہ ہتھکڑی لگانے کا کوئی پروگرام نہیں جبکہ میں نے آپ کا حکم بھی پہنچا دیا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ان کے ساتھ کوئی نامناسب سلوک نہ ہو۔ اس پر میاں صاحب ایک بار پھر مجھ سے مخاطب ہوکر کہنے لگے کہ صافی صاحب !فکر نہ کریں۔ ہتھکڑیاں صرف ہم سویلین کے لئے ہوتی ہیں۔ پھرمیاں صاحب اپنے ساتھ جنرل پرویز مشرف کے دور میں روا رکھے گئے سلوک کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ کس طرح ان کو اسلام آباد سے کراچی لے جاتے ہوئے ہتھکڑیاں لگائی گئیں اور پھر کس طرح جہاز میں ان کے ہتھکڑی لگے ہاتھوں کو سیٹ کے ساتھ باندھ دیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف کو اس روز ہتھکڑی لگی اور نہ اس کے بعد۔ گزشتہ چار سالوں میں تو انہیں کوئی عدالت میں بھی پیش نہ کر سکا۔ حالانکہ ان کے خلاف جو الزامات ہیں ان سے بڑھ کر سنگین تر الزامات کوئی ہو ہی نہیں سکتے۔ ایک الزام سنگین غداری کا اور دوسرا الزام اکبر بگٹی اور لال مسجد کی بچیوں کے قتل کا ہے۔ پرانے پاکستان میں تو ان چیزوں کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا تھا لیکن اب نئے پاکستان میں روزانہ ٹی وی پر نمودار ہوکر جنرل صاحب خطاب فرماتے ہیں لیکن عدالتوں میں پیش ہونے سے گریزاں ہیں۔ ہاں البتہ نئے پاکستان میں مخالف سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ اب ضعیف پروفیسروں کو بھی ہتھکڑیاں لگ گئیں۔ لیکن میں حیران ہوں کہ اس روز قیامت کیوں برپا نہ ہوئی جس روز ساٹھ سال سے زائد عمر کے ضعیف وائس چانسلرز اور پروفیسروں کو ہتھکڑیاں لگائی جارہی تھیں۔ حیران ہوں اس ملک کو چلانے والے متکبرین رات کو کیسے سوجاتے ہیں کہ جن کے اقتدار میں استاذالاساتذہ کی حیثیت رکھنے والے سابق وائس چانسلروں کی تذلیل ٹی وی کیمروں کے سامنے کی گئی؟ یہ معاشرہ زندہ روحوں کا معاشرہ ہوتا تو ان بزرگ اساتذہ کو ہتھکڑی لگانے والے پولیس اہلکاروں کے ہاتھ ان کی طرف بڑھنے سے پہلے توڑدیتا۔ دعویٰ ہر گز یہ نہیں کہ نیب کے ہاتھوں گرفتار ہونے والے اساتذہ فرشتے ہیں۔ انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انصاف کے تقاضے پورے کرکے ان کو سزا ضرور ملنی چاہئے لیکن تذلیل اور ہتھکڑی لگانے کا کیا جواز؟ چین کی دوستی پر فخر کرنے والے اس ملک کے مختاروں نے کیاکبھی یہ معلوم کیا ہے کہ وہاں اساتذہ کو کیا مقام دیا جاتا ہے اور یہ کہ آج اگر چین باقی دنیا سے آگے نکل رہا ہے تو اس کی ایک بنیادی وجہ یہ بھی ہے کہ اساتذہ کی عزت اور مقام کے لحاظ سے چین پوری دنیا میں سرفہرست ہے۔ کیا ریاست مدینہ کا ورد کرنے والوں نے کبھی یہ جاننے کی زحمت گوار ا کی ہے کہ اس ریاست کی بنیاد رکھنے والے محسن انسانیت ﷺ نے استاد کے بارے میں کیا ارشاد فرمایا ہے۔ آپﷺ کا فرمان ہے کہ انما بعثت معلما (بے شک مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے )۔ جس ملک میں جج، جرنیل اور جرنلسٹ کا تو احترام ہوبلکہ وہ قانون سے بالاتر ہوں لیکن استاد کی تحقیر کی جارہی ہو تو اس کے حاکم کس منہ سے ریاست مدینہ کا نام لیتے ہیں۔ جس ملک میں ساڑھے تین سو انسانوں کے قتل کے ملزم رائو انوار کو تو ہتھکڑی نہ لگ سکے لیکن ستر سالہ پروفیسرو ں کو ہتھکڑی لگا دی جائے، اللہ جانے اس ملک کا کیا ہوگا۔
میرے نزدیک یہ ہتھکڑی بزرگ اساتذہ کو نہیں بلکہ حقیقتاً پورے پاکستان کے اجتماعی ضمیر کو لگی ہے اس لئے مجھ سے رہانہ گیا۔ سیدھا لاہورگیا اور حقیقت جاننے کے لئے ڈی جی نیب میجر (ر) شہزاد سلیم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ نمازی اور دینی مزاج کے انسان ہیں۔ ان سے استفسار کیا کہ ان کے ہوتے ہوئے اس ظلم عظیم کا ارتکاب کیوں ہوا۔ وہ قسم اٹھا کر وضاحت دینے لگے کہ ایسا ان کے کہنے پر یا نیب کے احاطے میں نہیں ہوا۔ کہہ رہے تھے کہ جو کچھ کیا پولیس نے عدالت میں کیا اور یہ کہ وہ فرداً فرداً تمام اساتذہ سے مل کرمعافی مانگ چکے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگر پولیس نے کیا تو پھر ان پولیس اہلکاروں کے خلاف اب تک کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔
بزرگ اساتذہ کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے وہ تہہ درتہہ بے حسی اور ظلم کے سوا کچھ نہیں۔ صرف یہ نہیں کہ وہ پروفیسرز تھے بلکہ وائس چانسلرز کی حیثیت سے وہ سینکڑوں پروفیسروں کے قائد بھی رہے ہیں۔ پھر وہ بزرگ تھے اور کسی ایک کی عمر بھی ساٹھ سال سے کم نہیں۔ وہ باعزت رہا بھی ہوجائیں تو یقیناً اپنے آپ سے یہ کہتے رہے ہوں گے کہ پیغمبرانہ پیشہ اختیار کرکے انہوں نے اچھا نہیں کیا۔ وہ شاید اپنے والدین کوبھی کوستے رہیں گے کہ انہوں نے استاد بنانے کی بجائے انہیں جنرل پرویز مشرف کیوں نہیں بنایا۔ آئین توڑتے تو بھی کبھی گرفتار نہ ہوتے بلکہ اب دبئی کے محلات میں رقص کررہے ہوتے۔ وہ پروفیسر فلاں کی بجائے جنرل مشرف ہوتے تو ان کی عدالت میں پیشی سے قبل سلیم صافی جیسے صحافی بھی ان کے لئے پریشان ہوکر التجائیں کررہے ہوتے کہ کہیں ان کو ہتھکڑی نہ لگ جائے اور وزیراعظم یقین دلارہے ہوتے کہ ہتھکڑی لگنے کا سوال ہی پیدا نہیں۔ وہ یقیناً سوچ رہے ہوں گے کہ استاد بننے کی بجائے اگروہ رائو انوار کی طرح بدمعاش بن کر بے گناہ نقیب اللہ محسودوں کے قتل کے ملزم بنتے تو ہتھکڑی لگنا تو درکنار پاکستان کی سب سے بڑی عدالت میں بھی وی وی آئی پی دروازوں سے اندر جاتے۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے اب تک جو سوموٹوایکشنز لئے ہیں، ان میں یہ ایکشن شاید سب سے زیادہ مقدس ہے لیکن اگر جسٹس صاحب پاکستان کے مستقبل کو تاریکی سے بچانا چاہتے ہیں تو ان سے دست بستہ درخواست ہے کہ وہ اس معاملے کو رائو انوار کا معاملہ نہ بنائیں اور اسے منطقی انجام تک ضرور پہنچا دیں۔ ہم اپنے اساتذہ کو مناسب تنخواہیں نہیں دے سکتے، ان کو مناسب سروس اسٹرکچر نہیں دے سکتے، ان کو مناسب عزت اور توقیر نہیں دے سکتے تو کم ازکم ان کی تحقیر کرنے والوں کو سزا دے کر نمونہ عبرت تو بنا دیں۔ کیا ہی اچھا ہوگا کہ وزیراعظم، چیف جسٹس آف پاکستان اور آرمی چیف ان اساتذہ کی تالیف قلب کے لئے خود ان کے پاس نیب آفس جاکر ملاقات کرلیں۔ ان تینوں نے یہ زحمت گوارا کرلی تو مجھے یقین ہے کہ اس اقدام کا پیغام نئے پاکستان کی بنیاد بن جائے گانہیں تو خاکم بدہن بزرگ اساتذہ کو لگنے والی یہ ہتھکڑی پاکستان کے روشن مستقبل کے لئے ہتھکڑی ثابت ہوگی۔