پاکستان کی میڈیا انڈسٹری نے ویسے تو کئی عروج و زوال دیکھے ہیں لیکن آج جو کچھ ٹی وی چینل کے ٹوئنٹی ون پر دیکھنے کو ملا اس کے بعد یہ بات تو واضح ہوگئی ہے کہ معاشرے میں عدم برداشت عوام میں نہیں بلکہ ان کے رہنماؤں میں ہے۔ میں یہاں رہنماؤں کی تشریح نہیں کر سکتی اور نہ کرنا چاہتی ہوں وجہ یہ ہے کہ سیاستدانوں کو لوگ اپنا رہنما سمجھتے ہیں۔ بہرحال اس ساری بحث سے بڑھ کر سوال یہ ہے کہ امتیاز خان فاران صحافی جوکہ اس وقت کراچی پریس کلب کے صدر بھی ان کے ساتھ پاکستان تحریک انصاف کے ان ممبر کی جن کا نام بھی شاید بہت کم لوگ جانتے ہوں ہاتھ اٹھانے کا عمل کسی طرح بھی قابل معافی نہیں ہے۔
چینل پر بیٹھ کر دلیل کے بجائے آواز اونچی کرنے اور ہاتھ اٹھانے کی اجازت کسی کو بھی نہیں ہے پاکستان تحریک انصاف کے اس چہرے پر جو کہ آئے روز دیکھنے میں آتا ہے میں بحیثیت صحافی اس واقعے کی پرزور مذمت کرنا چاہتی ہوں۔ کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ آج صرف کے ٹوئنٹی ون چینل پہ دیکھا جائے گا کیونکہ وہاں بدتمیزی کا طوفان کھڑا کیا گیا ہے۔ یہ چینل کی انتظامیہ کے لیے بھی سوالیہ نشان ہے ہم ریٹنگ کی بھوک میں اتنے آگے بڑھ چکے ہیں فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیا کچھ نشر کر رہے ہیں اور کیا نشر کرنا چاہیے اس ساری بحث سے بھی آگے نکل جائیں۔
اخلاقیات کا یہ جنازہ آج ایک چینل پر سجا ہے کل کسی دوسرے چینل پر ہوگا۔ سمجھنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ معاشرہ پستی کی جانب جا رہا ہے جاہلوں کولڑتا دیکھ کر لوگ کہتے ہیں کہ پڑھے لکھے نہیں ہیں لیکن پڑھے لکھے لوگوں کا یہ رویہ دیکھ کر جاہل کیا کہیں گے تشویش اس بات کی ہے کہ یہ بدتمیزی امتیاز فاران کے ساتھ نہیں ہوئی ہے بلکہ اس سے پہلے بھی سمیع ابراہیم نامی صحافی کے ساتھ ہوچکی ہے، جو بول ٹی وی پر پروگرام کرتے ہیں ان کے ساتھ بھی فواد چوہدری نے تھپڑ رسید کرکے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا تھا۔ خدا خیر کرے کہ آنے والے دنوں میں صحافیوں کے ساتھ کیا ہونے والا ہے خود میرے اپنے پروگرام سات سے آٹھ ثناء ہاشمی کے ساتھ میں علامہ اقبال کے پوتے ولید اقبال صاحب نے کہا کہ بولتی رہو جو بولنا ہے نا لہجوں میں شائستگی، نہ گفتگو میں دلیل نہ ٹھہراؤ برداشت اور معذرت کے ساتھ نا ہی معلومات جس کو دیکھو آتا ہے سناتا ہے اور چلا جاتا ہے۔
کے ٹوئنٹی ون کی ریٹنگ بڑھتی ہے یا کم ہوتی ہے میرا اس سے لینا دینا نہیں ہے میرا لینا دینا اس بات سے ضرور ہے کہ آج جو کچھ امتیاز فاران کے ساتھ ہواور جو کچھ سمیع ابراہیم کے ساتھ ہو ہوچکا اگلی باری کس کی ہےمیں نے کسی کی حمایت نہیں بلکہ معاشرے کے لئے یہ لکھا، زرا سوچیں ہم آج کیا کرہے ہیں اور ہمارا مستقبل کیا ہوگا۔