پاکستان میں جمہوریت کب اور کیسے آئی، اور کیسے رہی ان دونوں سوالات کے جوابات اتنے طویل ہیں کہ شاید بہت سے قاری سے بخوبی واقف ہیں، لیکن یاداشتوں کی تازگی کے لئے 2008 کے الیکشن سے بات کرلیتے ہیں، کیا اس وقت جمیوریت آئی، یا اس دور کو جمہوری دور کہہ سکتے ہیں، یا پاکستان کی چودویں اسمبلی کے لئے ہونے والے عام انتخابات2013 کے بعد، جمہوریت نے اپنے قدم جمائے یا پھر 2018 کے الیکشن کے بعد جمہوریت آئی، 2008 کے انتخابات کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت سے کامیابی حاصل کی اور پی پی پی جماعت نے 122 نشستیں حاصل کیں، نواز گروپ نے 92 نشستیں، 25 نشستیں متحدہ قومی موومنٹ نے اور عوامی نیشنل پارٹی نے 13 نشستیں حاصل کیں جبکہ 2013 کے انتخابات میں ن لیگ کو 125، تحریک انصاف کو 35، پاکستان پیپلزپارٹی کو 32 نشستوں پر برتری ملی اور 26 جولائی 2018 کے عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف 112، ن لیگ نے 64، پیپلز پارٹی نے 42، اورایم ایم اے 10، ایم کیوایم 8، اور جے ڈی اے نے 6 جبکہ ق لیگ نے 3 نشتوں پر کامیابی حاصل کی ہوسکتا ہے۔
یہ معلومات آپکے پاس ہوں گی لیکن میں نے چاہا زرا یاد کریں کے جمہور نے کیسے کیسے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا، لیکن کیا 2008 کے الیکشن کے بعد جمہوریت چلی؟ یہ الگ بات ہے کہ صدر کی حیثیت سے محترم آصف علی زرداری ایوان صدر میں رہے یہاں یہ بھی یاد رہے کہ اس وقت کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو پانچ منٹ کی سزا کے ساتھ نااہلی کا تمغہ بھی ملا، پھر، انھوں نے چار سال 2 ماہ 25 دن اس عہدے گزارے، راجا پرویز اشرف صاحب نو ماہ دو دن تک اس عہدے پر رہے پھر 25 مارچ2013 کو میر ہزار خان کھوسہ نگران وزیر اعظم کے طور پر اس عہدے پر آئے اور اقتدار کی منتقلی اور عام انتخابات کے انعقاد تک اس عہدے پر رہے، 2013 کے انتخابات کے نتئجے میں مسلم لیگ نواز کی حکومت بنی، اور میاں نواز شریف اس عہدے پر چار سال ایک ماہ تک رہے اور مشہور زمانہ پانامہ اسکینڈل نے انھیں نااہل کیا، اور پھر اس عہدے پر شاہد خاقان عباسی صاحب 10 ماہ تک فائز رہے، ، وقت مقررہ پر انتخابات کا انعقاد ہوا، لیکن اس پہلے نگراں حکومت قائم ہوئی اور پاکستان کے 22 ویں چیف جسٹس آف پاکستان رہنے والے جسٹس ناصرالمک نگران وزیراعظم بنے۔
25 جولائی 2018 کو عام انتخابات عمل میں آئے اور 18 اگست 2018کو موجودہ وزیراعظم عمران خان نے اس مملکت خداد کے 22 ویں وزیراعظم کے عہدے کا حلف لیا، یہ سب لکھنے کا دو مقاصد ہیں ایک یہ کہ یاد رہے کہ یہ عہدہ بہت بے وفا رہا ہےاور لیاقت علی خان جیسے نظریاتی وزیراعظم ہوں یا شوکت عزیز جیسے ہر دل عزیزمہمان وزیراعظم اس عہدے نے وفا نہیں کی۔ اس میں ایک بڑا قصور سیاست دانوں کا بھی رہا ہے، لیکن یہ ایک طویل بحث، سر دست یہ سوال ہے کیا مائنس والا فارمولہ کوئی جان بھی رکھتا ہے یا نہیں، شیخ رشید کے تجزیہ کے مطابق مائنس ہوگا تو مائنس 3 ہوگاجبکہ شاہد خاقان عباسی کے مطابق مائنس ایک یا دو نہیں پورا 160 ہوگا، لیکن اسکا دارومدار، حکومت کی کارکردگی پر ہوگا، سوال یہ ہے کہ کارکردگی پیپلزپارٹی کے دور میں بھی سوالیہ نشان تھی، مسلم لیگ نواز، اور اب پی ٹی آئی کے دور میں بھی، لیکن انتقال اقتدار ہوتا رہا او وزراء اعظم کی نااہلی آرٹیکل 62 اور63، کے ترازو میں جھول گئی۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو ایک سال 10 ماہ 15 دن ہوئے ہیں، کیا اس دورانیئے مائنس ون والا فارمولہ کام کرے گا، میرا خیال ہے ابھی نہیں کم از کم 3 سال لگ جائیں گے کہ جو اس مائنس کا خواب دیکھ رہے ہیں، لیکن، میری خواہش ہے کہ جیسے تیسے، بھی ہو عمران خان کی حکومت اپنی مدت پوری کرےکوئی ایک وزیراعظم تو تاریخ میں انفرادیت پیدا کرے گے، ویسے یونہی یاد آیا بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں اس وقت کے صدر فاروق احمد خان لغاری نے 58 ٹو بی کے آئینی حق کو استعمال کرتے ہوئے بے نظیر کی حکومت کو گرا دیا تھا لیکن، اطمینان رکھیں، 18 ویں آئینی ترمیم نے اٹھاون ٹوبی کا راستہ ختم کردیا ہے، لیکن عمران خان یاد رکھیں یہ عہدہ بے وفا ہے، ویسے مائنس کے بعد عمران خان کیا پارٹی کو دیکھیں گے یا عارف علوی صاحب کی طرح کتابوں کو پڑھنے کا مشغلہ بمعہ رسمی عہدہ نبھائیں گے۔