وڈیرے کا بیٹا وڈیرے کا بیٹا یہ گانا آپ نے سنا ہے؟ جس میں سائیں تو سائیں کی گاڑی بھی سائیں، سائیں تو سائیں سائیں کا کتا بھی سائیں کہ بول ہیں جسکو علی گل پیر نے لکھا اور گایا ہے، اگر آپکا جواب نا ہے تو کوئی بات نہیں سن لیں اور اگر آپکا جواب ہاں میں ہے تو اسکو ایک بار پھر سن لیں، ، ، نتیجہ ذہن میں محفوظ کر لیں، اور اب ذرا میری گزارشات پڑھ لیں نام نہادمصنف، نفرتوں کا بیج بونے والا، پرانا چورن بیچنے والا، زہر آلود ذہن کاترجمان، یہ سب کسی اور کو نہیں پاکستان کے معروف مزاح نگار، مصنف، مصور، اور ایک ادبی گھرانے کے چشم وچراغ جو کہ اب خود بھی چراغ سحری لوگوں میں شمار ہوتے ہیں جنا ب انور مقصود صاحب کے لئے لکھا گیا، سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر طوفان آگیا تھا، آزادی اظہارے رائے کی اس تنگ نظری پر تو جرنل ضیاءالحق کی روح بھی شرما گئی ہو گی۔
مصنفین، شاعر، نقاد، کالم نگار، ادیبوں سے ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ سنبھل کے چلنا ہوگا، فتووں کے بازار میں شدت کے مینارے ہیں اور ناصح ہی راوی ہیں، مزاح کی چاشنی کی چپک معدوم ہوتے ہوتے دم توڑ رہی ہے، جاگتے رہنا بھائیوں، پھرنہ کہنا ہمیں خبر نہ ہوئی، مجھے تو یہ سوچ کر ہی لرزہ طاری ہوجاتا ہے کہ اگر مرزا اسداللہ خاں غالب کہیں آج کے دور میں ہوتے تو کیا ہوتا، منٹو کی سانسیں قائم رہ جاتی تو زندگی کی گھٹن کو وہ کیا لکھتے، طوطی ہند کہاں جاتے، میر اور درد کی آہ پرکتنی جگ ہنسائی ہوتی، اقبال کا شکوہ تخت دار کی نوید بن گیا ہوتا، عصمت چغتائی کا لحاف کس بے دردی سے ادھیٹرا جاتا شکر ہے کہ یہ خاک ہوگئے ورنہ، اہل ادب اور باذوق قارئین سے معذرت کے ساتھ کردیئے جاتے، عدم برداشت کی جس نہج پر باحیثیت معاشرہ ہم کھڑے ہیں وہاں سے بس ایک یہی آواز آنا باقی ہے کہ گرتی ہوئی دیوار کو ایک دھکا اور دو، اور ہم سب گر پڑیں گے اور وہ کبھی نہ سنبھلنے کے لئے، میں انور مقصود کی نہ کوئی مداح ہوں نہ ترجمان، لیکن میرا ضمیر اس بات کو گوارا نہیں کررہا تھا کہ لب سیئے رکھواور احباب کے سامنے سینہ کوبی کر ے خود کو اس تمام معاملے کا خاموش تماشائی بنائے رکھو، اسلئے جرت کی کہ کم ازکم اپنے خیالات سے تو آپ سب کو آگاہ کرو، اور پھر اختلاف کا کیواڑ تو کھلا ہی ہے، کیا سندھی پنجابی، بلوچی، پشتون، اور مہاجر پاکستان کا چہرہ نہیں، بھوکے ننگے لوگ کہہ کر نفرت کی پیاس کو تسکین تو مل سکتی ہے لیکن اس احساس سے نسلیں تباہ ہوجائیں گی، بلوچستان میں پنجاب کو گالی بنا ئے رکھنے کا میڈل کون اپنے سینے پر لگوانا چاھتا ہے، اگر اجداد قیام پاکستان کو غلطی کہہ رہے تھے تو کیا اس کی سزا، دریا خان کی اولاد کی اولاد کو بھی دی جائے، خدا کا واسطہ ہے بند کردیں یہ بحث، آپکا تعلق اگربہار سے ہے تو اس میں کوئی شرم کی بات نہیں چاھے کوئی لاکھ کہے کہ جو نہ کٹے آری سے وہ کٹے بہاری سے اگر کوی کہے ھیو (سندھی رسم الخط کی غلطی پر معذرت ) تو آپ برا نہ منائیں کیونکہ اس زبان کی چاشنی اسکے لہجے میں ہے اور اگرآپ خود ان لفظوں کو باعث شرم محسوس کریں گے تو پھر زبان کی ترویج رک جائے گی، او کدھر نس گیا نئے، ادا کرتے ہوئے کچھ عجیب لگتا ہے لیکن پنجابی زبان کا جاگیردانہ لہجہ، بنیان لان جاندو میں ڈھلتا ہے تو واقعی بنیان میری ٹاپ کی کہنے کو خود بہ خود دل چاھتا ہے بقول انور مسعود کی اس شرہ آفاق نظم کو امریکہ کے شہر نیوجرسی میں ایک مشاعرہ کے دوران پڑھےنے کی فرمائش آئی جب اسٹیج پر پہنچے تو تو بنیان بنیان کی آوازیں آنا شروع ہوگئیں، انور مسعود کہتے ہیں میں نے کہا یہ جرسی پہنے والوں کا بنیان سے کیا لینا لیکن یہ حس مزاح قائم ہو تو مفہوم کے غوطہ لینے میں مزا آتا ہے ورنہ، ، ، آہ کیا کہوں اب پشتو کے مشہورشاعر، جنگجو، فلسفی خوشحال خان خٹک کا نام سنکر اگر آج کے دور کا کوئی بچہ یہ سوال کرلے کہ یہ کیسا نام ہے تو اس سے خوشحال خان خٹک کی شخصیت پر گرد نہیں پڑنے والی، بس یہ روادری جو ہم ہر گزرتے لمحے میں کھو رہے ہیں اسکو جکڑ کے رکھنے کی ضرورت ہے، آپکا اختلاف سر آنکھوں پر لیکن قلم سے نکلی روشنائی کو دل کی سیاہی سے مت دیکھئے، نقظہ نظر، پروسیع القلبی کامظاہرہ کرنے سے نہ قد کم ہوگا اور نہ عزت کا وضو فاسق ہوگا، بس اتنا ہوگا کہ ہم ایک دوسرے کی سندھی، مہاجر، پنجابی، بلوچی اور پشتون ہونے پر فخر کریں گے، پاکستان ان تما م حسین ناموں سے دنیا میں اپنی پہچان رکھتا ہے، یہ قومیتیں پاکستان کے چہرے کے خدوخال ہیں جس پر ہم سب کو فخر ہے، خود کو سندھی پنجابی مہاجر، بلوچی یا پشتون ضرور کہیں لیکن ہیں ہم سب پاکستانی۔
انور مقصود نے جس سندھی شخص کے لب ولہجے کو اپنا کر اپنا مقالہ پیش کیا وہ ایک ہاری نہیں ہے وہ ایک مزارا نہیں ہے لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ وہ کردار ہمارے آس پاس نہیں وڈیرے کو بیٹا اور سائیں تو سائیں سنا آپ نے اب زرا سوچیں کیا انور مقصود جیسے انسان پر اس حد تک کی تنقید جائز تھی جو کی گئی جس پر انھیں معافی مانگنا پڑی اگر ہاں تو مجھے اجازت دیں کیونکہ میں اس جواب کی دلیل پرصرف انور انکل کی طرح معافی ہی مانگ سکتی ہوں معافی مانگ لینا اعلی ظرفی کی نشانی ہے اور وہ بھی اس عمل پر جس سے کسی کا دل دکھا ہو، آپ میں سے اکثریت نے انور مقصود صاحب کا لکھا ہوا وہ مقالہ دیکھا ہوگااور اگر نہیں دیکھا تو دیکھ لیں اور اگر دیکھ رکھا ہے تو ایک مرتبہ پھر دیکھ لیں اور اگر میری اس تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہے تو میں معافی چاھتی ہوں، لیکن ہندوستان کے مشہور شاعر اور رائٹر جاوید اختر صاحب کے لکھے ایک گانے کے بول ہیں جو ہم سب پر صادق آتے ہیں ہم تو بھئی جیسے ہیں ویسے رہیں گے، اب کوئی خوش ہو یا ہو خفا ہم نہیں بدلیں گے اپنی ادا۔ ۔ زرا سر میں گائیں توپیش کی گئی گزارشات پر اوس پڑ جائے گی یہی ہمارا سچ ہے۔