بچپن میں چور پولیس کا کھیل اکثریت کا پسندیدہ کھیل رہا ہوگا لیکن آج کل یہ کھیل زرا بدل کہ پولیس سے پولیس کا کھیل بن گیا، کراچی میں کچھ پولیس افسران کے نام ایسے ہیں جو زبان زد عام رہے ہیں اور آج بھی کچھ کی مقبولیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا، ، انہی میں سے ایک نام ہے راﺅانوار صاحب کا ایسا لگتا ہے ضلع ملیر اور راﺅ انوار ایک دوسرے کے لئے بنے ہیں، ، نہ کبھی راﺅ انوار کو ملیر سے جدا دیکھا اور نہ کبھی سنا، ، اگر کبھی ایسی کوئی افتاد پڑ بھی جائے تو بس چند گھنٹوں کا زور ہوتا تھا اور پھر وہی ضلع ملیر ہوتا تھا اور راﺅ انوار، کرائم رپوٹر یہ بات بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ راﺅ انوار کے ان کاﺅنٹر سے کی خبر سے پہلے اکثریت کو فون آیا کرتے تھے کہ آجاﺅ آج چار یا تین یاپانچ ماروں گا، اس بات کی تصدیق کروائی جاسکتی ہے، اور یوں ان کاﺅنٹر ہوتا تھا اور بس پھر خبر نشر، اور خبر کے بعد راﺅ انوار کی وہی پریس بریفینگ اور ایک گھنٹے بات بس خبر کی اہمیت اتنی رہ جاتی تھی کہ آج سپر ہائی وے پر راﺅ انوار کا دہشت گردوں سے مقابلہ اور اس تعداد میں دہشت گرد ہلاک، میں یہ نہیں کہہ رہی کہ سب کے سب مقابلے جعلی تھے لیکن اس سب کے بارے میں تحقیقات ہونی چاھئے، ، خود راﺅ انوار صاحب کہہ چکے ہیں اتنے تیر چلائے ہیں اگر ایک نقیب پر غلط چل گیا تو کیا پچھلے تمام تیر بھی خطا ہو ئے، جب میں نے راﺅ انوار صاحب کا یہ بیان ٹی وی کی لال پٹی پر دیکھا، میں نے سوچا یہ راﺅ انوار صاحب بھی کاریگر ہیں نشانہ لیا بھی تو تیر سے، اب تیر ہو یا تلوار دونوں کا کام ضرب لگانا ہے، ، یہ الگ با ت ہے کہ وہ تیر کسی کالے لال اور ہرے پرچم کی نمائندگی بھی کرتا ہو، ، نقیب کے ایک معنی اعلان کرنے والے کے بھی ہیں، اور خبر کرنے والے کہ بھی ہیں، ، اور نقیب اپنی زندگی میں ایسا چاھتا تھا کہ وہ سب کا مرکز نگاہ ہو، سوشل میڈیا پر اسکی حکمرانی ہو، لیکن اسے زندگی میں تو یہ سب نہ مل سکا لیکن اسکی موت نے اسکے نام کی لاج رکھی اور اسکی خبر ہر گھر تک پہنچی، اسکے خون ناحق کا اعلان ہر سو ہوا اور ہو رہا ہے، لیکن نہیں ہورہا تھا راﺅ انوار صاحب کی گرفتاری کا معرکہ سر نہیں ہو رہا، آئی جی سندھ نے مدد بھی مانگ لی لیکن نتیجہ تاحال سامنے نہیں آسکا، رات کے اس پہر جب گھٹری ایک بجا رہی تاحال راﺅ انوار سے متعلق یہی خبر ہے کہ وہ تاحال مفرور ہیں، ، سندھ پولیس کے دعوے ہر گزرتے دن کے ساتھ کمزور ہو رہے ہیں اور راﺅ انوار کی عدم گرفتاری انکی سٹم پر گرفت کو بڑھا رہی ہے تیرہ جنوری سے آج دن تک راﺅ انوار نے شروع کے تین دن تو میڈیا کے سامنے آکر اپنا موقف دیا لیکن محسن کے مشورے نے انھیں اس عمل سے باز کیا، ، اور کیا بات ہے راﺅ صاحب کی کہ وہ بھی وعن اس پر عمل کررہے ہیں جبکہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے انھیں عدالتی تحویل میں آنے کا حکم بھی دیا ہے، لیکن لگتا ہے محسن نے مزید اچھے وقت کا عندیہ دے رکھا ہے کیونکہ انکی ریٹائرمنٹ میں بھی چند ہی ماہ رہ گئے، راﺅ انوار کے جسطرح ان کاونٹر ہمیشہ زبان زد عام رہے آج خود انکی روپوشی بھی ہر دوسری محفل کا موضوع ہے، سندھ کی متحرک پولیس ایک راﺅ انوار کو پکٹرنے سے آخر قاصر کیوں ہے، یہاں لگتا ہے کہ شاید کوئی چاھتا نہیں کہ راﺅ کو پکڑا جائے، اور اس معاملے میں جس طرح دبایا جاسکتا ہے دبایا جائے، آج کے اس جدید دور میں جب کچھ بھی ناممکن نہیں رہا وہاں راﺅ انوار کا 26 روز تک مفرور رہنا کسی اچھنبے سے کم نہیں، دوسری طرف یہ سندھ پولیس کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے، آئی جی سندھ کی تمام حکمت اورعدالت عالیہ کے سامنے راﺅ انوار کی گرفتاری سے متعلق وعدہ اور باحثیت افسر انکے فرائض لگتا ہے ہوا ہو گئے ہیں، سندھ کے وزیر داخلہ سہیل انور سیال صاحب بھی ہر میڈیا ٹاک میں بس یہی کہتے ہیں کہ راﺅانوار کی تلاش جاری ہے، مجھے یہ لفظ لکھتے ہوئے شرم آرہی ہے لیکن ہمارے صوبائی وزیر داخلہ کو یہ کہتے ہوئے نا لکنت محسوس ہوتی ہے اور نہ شرم، ، اس شہر میں آپ کیا کرائم کنٹرول کریں گے، ایک ایس ایس پی جو کہ اب سابق بھی ہے ایسے سونے کی چڑیا کے پنجرے میں بند ہے جسکی چابی نہ وزیر اعلی سندھ اور نہ وزیر داخلہ سندھ اور آئی جی سندھ صاحب تو خواب میں بھی چابی کی تلاش اور اسکو حاصل کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتے، سندھ پولیس پر عدم اعتماد کے احساس کو راﺅ انوار کی عدم گرفتاری روزانہ تقویت دے رہی ہے، ڈبل سواری پر پابندی کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لئے پولیس سٹرکوں پر ہوتی ہے تو نوجوان ان پر طرح طرح کے جملے کستے ہیں، مجھے ہمیشہ اس طرح کے مناظر دیکھ کر افسوس ہوا ہے کہ ہم کیوں قانون کی پاسداری نہیں کرتے، لیکن آج ایک لڑکے کو ہیڈلایٹس نہ ہونے پر سارجنٹ نے روکا میں وہاں کھڑی گاڑی کا انتظار کر رہی تھی اور سارجنٹ اور اس نوجوان کی بات بھی سن رہی تھی چالان کاٹنے پر نوجوان نے جلی کٹی تو سنائی اورموٹر بائیک پر بیٹھتے ہوئے کہا ایک راﺅ انوار تو پکٹرا نہیں جاتا اور عوام کی کرو ایسی تیسی، ، میرے لبوں پر مسکراہٹ آئی اور میں گاڑی میں بیٹھ کر سارے راستے یہی سوچتی رہی کہ گو کہ اس ٹریفک پولیس والے کی زمہ داری نہیں کہ وہ راﺅ انوار کو ڈھونڈے لیکن اس نوجوان کی خواہش ضرور ہے کہ جسیے بھی ہوقانون پر عملدآمد کرویا جائے، لیکن حقیت میں اس کے آثار معدوم ہیں، اب اگر کل صبح راﺅ انور اچانک کسی بل سے باہر نکل آتے ہیں اورخود د عدالت میں پیش ہوجاتے ہیں تو یہ یقینا سندھ پولیس کی سبکی ہوگی، کہنے والے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ راﺅ انوار کی جان کو خطرہ ہے ایک سابق ایس ایس پی کیا اہمیت کسی روڈ ایکسڈینٹ سے لیکر اور کئی حربوں سے راستہ صاف کیا جاسکتا ہے، لیکن اس وقت سابق ایس ایس پی راﺅ انوار صاحب کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عدالتی تحویل میں آکر ان حقائق سے ضرور پردہ اٹھائیں جو انکے علم میں ہیں، اور اپنے اوپر لگائے جانے والے الزمات کا جواب دیں، نقیب یہاں نہیں لیکن روز محشر راﺅ انوار کا گریبان ضرور پکٹرے گا اور سوال یہی ہوگا کہ میرا قصور کیا تھا، نقیب کے معصوم بچوں سے باپ کا سایہ چھینا ہے راﺅ انوار آپ نے رتی بھر آپکا ضمیر ملامت نہیں کرتا، اپنے بچوں کا سوچیں اگرکل انھیں اسی درد سے گزرنا پڑے تو آپ پر قبر کی ابدی نیند بھی بھاری ہو جائے گی، جزباتی نہیں ہو رہی لیکن سچ سوال یہی ہے کہ طاقتور کون ہے، قانون، سندھ پولیس، یا راﺅ انوار۔