چہرے پر پتلی ناک، اور خاموش اور گہری آنکھیں صبح کے سنہرے پن کا کہیں دور بھی کو ئی نشان نہیں البتہ رات کے اندھیرے سے قریب تر، تم مجھے بہت اچھی لگتی ہو، یہ جملہ پہلا باری سنا تو خود کوشیشے میں دیکھنا محال ہوگیا رہ رہ کر الفاظ گونج رہے تھے اور ڈر تھا کہ کہیں کوئی سن لے پھر ایک روز محلے کی ایک پڑوسن سہیلی نے کہایہ گاڑی ولا لڑکا تم کو دیکھتا ہے مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تمھیں کہوں کہ وہ تمیں پسند کرتا ہے، اور میں جھینپ گئی، کہنے لگی رہنے دو، سہیلی نے کہا اچھا کھاتا پیتا لگتا ہے، ارے مرتا ہے بات تو کرلو، لیکن وہ نہ مانی، وقت کی رفتاربے لگام دوڑتی رہی اور پچپن نے جوانی کا کب لباس اوڑھا پتہ ہی نہ چلا ایک روز شام ڈھلے بک اسٹال سے واپسی پر ایک نامعلوم شخص نے پیچھے پیچھے چلنا شروع کردیا، میں نے قدم بڑھانے کے بجائے بھاگنا شروع کردیا، اس بات سے بے خبر کہ وہ کیا چاھتا ہے، لیکن اس کا بار بار کہنا روکو، سنو میری بات! آج بھی میری سماعتوں میں محفوظ ہے، مجھے ایک ٹیوٹر گھر میں پڑھانے آتے تھے، میں ہمیشہ انکی عزت کرتی تھی ایک روز پڑھاتے پڑھاتے بولے تم اچھی لگتی ہو مجھے، لگا کہ بس کوئی بہت سارے پردے ڈال دے میرے آگے اور میں کسی کو دیکھائی نہ دو، لیکن ایسا ممکن نہیں تھاانکے لفظ مجھے مضطرب کرگئے، حالات نے ایسا مجبور کیاکہ تعلیمی میدان میں نہ سہی لیکن عملی میدان میں قدم رکھنا پڑا، پیسہ ضرورت تھا اور اس وقت جسطرح کی چھوٹی یا بڑی نوکری میسر آسکی کر لی اس بات سے قطع نظر کہ یہ معیار ہے اور یہ نہیں چلچلاتی دھوپ سے لیکرسخت سردی اور بارش میں بھی خود کوکبھی کمزور نہیں ہونے دیا کیونکہ اگر میرا وجود کمزور پڑتا تو میرا گھر کوئی نہیں سمیٹتا۔ ۔ ۔ میں یہ سب ابھی سن ہی رہی تھی کہ وہ اٹھ کر چلی گئی اور کہا کافی تو چلے گی، میں یہ سوچنے پر مجبور ہوئی کہ اتنی مشکل حالات کی آپ بیتی کے دوران اسکو کافی کیسے یاد آگئی، لیکن چونکہ میں انکے گھرمیں تھی لہذا خاموشی سے واپسی کا انتظار کرنے لگی کیونکہ ان باتوں نے مجھے اسکی شخصیت میں دلچسپی کو بڑھا دیاتھا، کچھ ہی لمحوں میں وہ دو کافی کے مگ ٹرے میں رکھ کر نمودار ہوگئی، اسکے لباس میں دو چیزیں مجھے متاثر کر رہی تھیں ڈارک نیو بلیو ٹراوزر پر پوری آستیین کی ڈھلی قمیض اور اسکے ساتھ دوپٹہ، ابھی میں نے کافی کی چسکی کے ساتھ تعریف کے لئے کچھ کہنا ہی چاھا تھا کہ، چھک سے ہلکی سے آواز کے ساتھ ایک ناخوشگوار بو کمرے میں پھیل گئی، دیکھا تو لائٹر سے موصوفہ نے سگریٹ سلگا لی تھی، میں چونکہ کسی کے مرہون منت ان سے ملی تھی سو خاموشی سے انکے خود سے بولنے کا انتطار کرنے لگی، لیکن خاموشی کا وہ ایک لمحہ مجھے بہت لمبا لگ رہا تھا لہذا میں نے خود ہی سوال کر ڈالا کہ آپ بہت ساری مادی چیزوں سے دور ہیں ایسا کیوں، اس پر انھوں نے کہا آج بھی کرائے کہ مکان میں ہوں، گھر کی ذمہ داریوں میں کہیں کمی نہیں، جو کمایا اپنے گھر کی عزت کے لئے، اور مرتے دم تک اپنے گھر والوں کے لئے کچھ کر جانا چاھتی ہوں، مجھے یاد ہے جب مجھے پہلی بار 8000 روپے ملے تھے میں بے پناہ خوش تھی کہ اب گھر کے مسئلے حل ہوجائیں گے، رفتہ رفتہ نیا کام بھی ملتا رہا روزانہ کی بنیاد پر دھاڑی جیسے آپ کہتے ہیں وہ کام بھی کیا صبح 10 سے شام6 تک کام کرنے کے ایک دن میں ایک ہزار روپے ملتے تھے اور دوپہر کا کھانا کمپنی کا، اور اسکے ساتھ ہی ایک اور کش لیا اور کہا آپ عورتوں کے عالمی دن پر مجھ سے آخر کیا سننا چاھتی ہیں، میں پھر اچانک انکو باغور دیکھنے لگی، ، اور صرف اتنا کہہ سکی مجھے ایک سچی آپ بیتی کی تلاش ہے اور مجھے لگتا ہے میں اسکے بہت قریب ہوں، خاتون نے ایک ہاتھ میں سگریٹ پکڑتے ہوئے کمرے کے پردے کو ہاتھ سے ٹھیک کیا او ر مخاطب ہوئیں کہ دیکھو، آپ بیتی اتنی کڑوی ہے کہ تم نہیں لکھ سکو گی میری مانویہ یہی روک دو، میں نے کہا نہیں مجھے خود پر یقین ہے میں آپکی آپ بیتی کو عورتوں کے عالمی دن پر شایع کروا کر صرف داد نہیں چاھتی بلکہ اس دن کو جس سے منصوب کیا جاتا ہے اسکی نگا ہ سے اسکے احساس کو پہچننا چاھتی ہوں، جس پر انھوں نے آنکھ کو سگریٹ کے دھوے سے صاف کرتے ہوئے سامنے پڑی ایش ٹرے میں اسے بجھا دیا اور پھر گویا ہوئیں، مجھے چوڑیوں اور مہندی پسند تھی، لیکن کسی نے کہا کہ تمھارے ہاتھوں میں یہ خوب سجتی ہے اور مجھے پھر احساس ہو کہ یہ ایک بے معنی سا لفظ ہے جسکو آئندہ سننے کی مجھے طلب نہیں، اور وہ دن اور آج کا دن میں نے چوڑی اورمہندی کو ہاتھ نہیں لگایا، مجھے یہ لفظ بہت عجیب لگتا تھا کہ تم کیا ہو تمھیں کیا معلوم، اور مجھے لگتا تھا کہ ان میں سے کسی کو نہیں معلوم کہ وہ یہ سب جس خاطر کہتے ہیں اسکی تصویر میرے آنکھوں کے پردے پر واضع انداز میں موجود ہے، مجھے مردوں نے ہمیشہ اپنے حسین لفظوں کے پیراہن پہنائے، لیکن میری روح کو ہر بار تار تار کیا!! سنو یہ مت لکھنا بے وجہ لگے کا میں خود کو معصوم اور مظلوم بناکر پیش کررہی ہوں، مجھے ایک مرتبہ پھر حیرت ہوئی کہ آخر سمندر کی تہہ سے آنے والے لفظ اچانک معاشرتی رویے کو کیسے محسوس کرنے لگتے ہیں، میں نے کہا دیکھئے میر ا اور آپکا یہ وعدہ ہے کہ آپکا نام ظاہر نہیں ہو گا لیکن پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لئے میں آپکی باتوں کو من وعن لکھنے کی خواہشمند ہوں، خاتون نے کہا، یہ بھی دیکھو کہ میری زندگی کا سچ لوگوں کوپڑھنے کی حد تک تو تسکین دے گا، لیکن میرے مداوا، خیر جانے دو دیکھو ثناءیہ سچ ہے کہ عورت دو پیار کے لفظوں کی محتا ج ہے یہ پہلا موقع تھا جب انھوں نے مجھے نام سے پکارا تھا، میں زرا اور سیدھا ہوکر بیٹھ گئی، ، کہنے لگی تم مجھے اچھی لگتی ہو، مجھے تم پسند ہو، میں تم سے محبت کرتا ہوں عورت کی کمزوری ہیں جو بھی اسے ان لفظوں میں خراج پیش کرتا ہے، تم مانو یا نا مانو یہ اسے ہمیشہ یاد رکھتی ہے، ، اچانک موبائل پر ایک میسج آیا اور خاتون نے کہا ایک منٹ روکو، مجھے لگا کسی سے فون پر بات کریں گی لیکن انھوں نے میسج کا ریپلائے دیا اور کہنے لگی، یقین کرو گی آج بھی محبت کے پیغامات آتے ہیں اور ہنسے لگیں، میں چپ ہوگئیں، انھوں نے کہا کہ میرے ہوش سنبھالنے سے آج دن تک ہر مرد کو میں بس جب تک اچھی لگتی تھی جب تک میں اسکے ساتھ یا تو لانگ ڈرائیو پر نہ چلی جاﺅ یا پھر، چند لمحے اسکے ساتھ نہ گزار لوں اور جاتے جاتے اپنے گالوں پر اسکا بوسہ نہ لے لوں، لکھنا یہ سب یہ مت کہنا کہ سنسر کرنا پڑا، عورتوں کے عالمی دن پر لکھ رہی ہوں نہ تو کہنا پپلیشر کو کہ عورت کے سچ اگر جان گئے تو کانپ جاﺅ گے، انکی لہجہ میں تلخی نے کب ڈیرا ڈالا مجھے معلوم نہیں ہوا، اس سے پہلے کہ میں سوال کرتی، انھوں نے خود ہی کہہ دیایہ نہ سمجھو کہ میں جذباتی ہوگئی بلکہ یہ ہر عورت کا سچ ہے لیکن بےچاری کہہ نہیں پاتی، یہ سچ ہے ثنا، عورت بہت نازک ہے لیکن دیکھو میرے چہرے پر تمھیں وہ نازکی نظر نہیں آئے گئی ایسے میں نے اپنے پچپن میں ہی دفن کردیا تھا جب میں امی کے کہنے پرپڑوس میں کھانا دینے گئی اور ایک75 سالہ بوڑھے نے جس سے پوری طرح دیکھا بھی نہیں جارہا تھا مجھے اپنے قریب کرنے کی کوشش کی، آہ تم نے کہا تھا کہ تم میری آپ بیتی کے قریب ہو کیا اب بھی اپنی بات پر قائم ہو میں نے نفی میں سر ہلا دیا ایسا لگا انھیں میرا جواب معلوم تھا تبھی کہنے لگی، اب جو پوچھو گی میں اسکا جواب دے دوں گی، مجھے لگا یہ سب سے مشکل کام ہو گا کیونکہ جو کچھ ان پر بیتا تھا، اسکو جاننے کے لئے میرے سوال بہت نوزائیدہ تھے، پھر بھی میں نے پوچھا کہ آپ کوکبھی کسی سے محبت ہوئی، ؟ بہت سپاٹ لہجے اور خالی آنکھوں سے انھوں نے کہا ہوتی ہے میری جان ہر ہر بار بار، میں نے کہا یہ تو عورت کی فطرت نہیں؟ وہ تو ہمیشہ کے لئے کسی ایک ہو جاتی ہے !، جس پر انھوں نے کہا خود ہی سوال کرتی اور خود ہی جواب بھی دیتی ہو، میں نے اپنے ذہن میں لفظوں کو پھر دھرایا نہیں میں نے ایسا کچھ نہیں کہا جس میں جواب ہوتا خود کو تسلی دیتے ہوئے میں دوبارہ مخاطب ہوئی تو انھوں نے کہا تم نے کہا نہ عورت کی فطرت، ان مردوں نے مجھے عورت چھوڑا ہی کب!! جس طرح انھیں کسی کی آنکھیں، کسی کے بال، کسی گال ور کسی کی چال پر ڈھیر ہوتے دیر نہیں لگتی بس اب مجھے بھی کسی مرد سے محبت ہوتے لمحے بھر کی بھی دیر نہیں ہوتی، میں نے قلم کو سنبھلا، کیونکہ میں پوانٹس کے ساتھ انکی باتیں لکھ رہی تھی، کہ دروازے پر دستک ہوئی انھوں نے دروازہ کھولا اور مجھے یہ آواز کہ کوئی لڑکی آئی ہوئی ہے زرا دیر میں آجاﺅ، مجھے بھی لگا کہ میں نے انکا بہت وقت لے لیا ہے بس ایک دو باتیں اور پوچھ لو پھر اجازت لو ں گی، اور اسکے ساتھ ہی دروازے کو بند کرنے کی آواز آئی، اور اگلے لمحے میں وہ کمرے میں وہ اسی انداز میں پرسکون ہوکر بیٹھ گئیں، میں نے پوچھا جن مردوں سے آپ ہمیشہ ملی ہیں انھوں نے آپکی ہمیشہ تعریف کی جیساکہ آپ نے اعتراف کیا تو پھر مرد کیا قصور اسنے تو آپ کی شخصیت سے متاثر ہوکر یہ سب کہا، میرے جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی وہ کہہ اٹھیں کیوں چاھتی ہو زبان کو پکڑ کر کہا میں اس تلوار کو ننگا کردوں۔
مجھے آگے کچھ کہنے کی ہمت نہیں تھی، نہ یہ کہ عورتوں کے عالمی دن پر کوئی پیغام دینا چاھیں گی، اور نہ یہ کہ آپکا کہا سچ میرے ے دل کے ہر کونے میں پھیل گیا ہے، ایک سچی آپ بیتی عورتوں کا عالمی دن مبارک ہو۔