شام کے کوئی پانچ بجے ہوں گے، ، سورج کی حدت میں کمی کے ساتھ ساتھ ہلکی ٹھنڈی ہوا کمرے کی کھڑی سے فرحت کا احساس دلا رہی تھی، اور میں اس احساس کی دہلیز پر ہی تھی کہ میرے موبائل فون کی گھنٹی نے مجھے چونکا دیا، میرے بہت اچھے دوست اور میرے سب سے بڑے ناقد کی کال تھی، سلام دعا اور حال احوال کے بعد انھوں نے کہا، ، ثناءہاشمی بہت دن ہوئے کچھ لکھا نہیں نہ ملالہ کی آمد، ، ، نہ راﺅ انوار کی پیشی میں نے عرض کیا، آپ کا شکوہ بجا ہے میں اپنی کوتاہی پر معافی چاھتی ہوں اور جلد ضرور کچھ لکھو گی کا وعدہ کرتے ہوئے رابط منقطع کرنے کے بعد میں سوچنے لگی کہ ایازرانا صاحب ٹھیک کہہ رہے ہیں اور بس کچھ ہی لمحوں میں زہن کے پردے پر ایک بعد ایک واقعہ یوں نمودار ہونے لگا، ، چیف جسٹس اور وزیراعظم کی ملاقات، ، افغانستان کے شہر قندوز میں مدرسے میں شہید معصوم بچے، کشمیر میں بھارت کی تازہ کاروائیاں، شام میں ہر پل بگڑتی صورتحال، ملک میں مجھے کیوں نکالا کی گردان، سیاست دانوں کے آشیانوں کی تبدیلی اورایم کیوایم جیسی تنظیم کا ہر روز بکھرتا شیرازہ فکر کے گھوڑے تیز ہوئے ہی تھے کہ چائے بن گئی کی آواز نے سارا تسلسل توڑ دیا اور یوں اس بات کو گزرے بھی کوئی ایک ہفتے سے زیادہ ہوگیا۔
لیکن گزشتہ روز نواز شریف کی تاحیات ناہلی نے بلاآخر لکھنے پر آمادہ کر ہی لیا، جرنل ضیاءالحق پر لعن طعن کرنے والے لوگوں کوکچھ تو چین آیا ہوگا کہ نواز شریف صاحب جس کوکھ سے پیدا ہوئے ان ہی کے بنائے گئے قوانین کی تشریح نے انھیں سیاسی موت کاتحفہ تھما دیا، اب نواز شریف صاحب اس میں سے سیاسی شہید کے لئے جو کچھ سمیٹانا ہوسمیٹتے رہیں، پاکستان پیپلز پارٹی کو صادق اور امین کے میزان پر پرکھنے کا ارداہ کرنے والی مسلم لیگ نوازجو بقول بلاول زرداری کے مسلم لیگ ش ہے، میں دو قدم اور بڑھ کر کہہ دیتی ہوں کہ یہ میم ہے خیرجانے دیں یہ جو بھی ہے یا رہ گئی ہے اس میں نواز شریف صاحب کہیں نہیں ہیں سیالکوٹ میں خطاب کرتے ہوئے مریم نواز کہہ رہی تھیں کہ 2018 میں مسلم لیگ نواز پر ووٹوں کی بارش ہوگی، لیکن کسی شرراتی نے ووٹوں ہٹاکر مجھے میسج کیا کہ میڈم یہ جوتوں یا بوٹوں بھی تو ہوسکتاہے، جس سے میں بہرحال متفق نہیں، لیکن کسی کی زبان بندی کرنا آج کے دور میں زرا مشکل ہے، مگر یہ حقیقت بھی کم نہیں کہ کس کو کہاں کیا کہنا ہے اور کس طرح کہنا ہے اسکے لئے بھی خصوصی نشستوں کا اہتما م کیاجاتا ہے جو زیادہ نہیں بس پچھلے ماہ کی بات ہے سمجھ تو گئے ہوں گے آپ۔
ملالہ کس کی ایجنٹ ہے اس پر جو جو کچھ کہا اور لکھا گیا اسکی حقیقت لکھنے والے جانے لیکن، راﺅ انوار تو زرداری صاحب کے بہادر بچے ہیں، خود زرداری صاحب کس کے بہادر بچے بن گئے ؟؟فریادی وزیر اعظم نے آخر ملک کے سب سے بڑے انصاف کے ایوان کی محترم شخصیت جناب چیف جسٹس کے سامنے آخر کیا دست سوال کیا؟؟قندوز میں مرنے والے بچوں پر آہ بکا تو دور کوئی سسکی بھی کیوں سنائی نہ دی؟کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن زرا یاد کر کے بتا دیں کہ متحدہ مجلس عمل کے قیام سے فرصت اور نواز شریف صاحب کی ہاں میں ہاں ملانے سے کچھ وقت اگر بچ گیا گیا ہے تو کشمیر ہماری شہ رگ کے نعرے لگوانے کا کب ارادہ ہے ؟؟اقوام متحدہ کے سوئے ہوئے ادراے کو جس پر سے ہاتھی گزرے یا چیونٹی کب اور کون بتائے گا، کہ فلسطین اور شام میں موت بٹانے والے امریکہ صاحب بہادر کوباز رکھنے کی زمہ داری کس کی ہے ؟سچ کہوں بس اسلئے ہی نہیں لکھ رہی تھی کہ ان سب سوالوں کے جوابات نہ ملنے پر جو اضطراب ہوگا اس سے صرف اپنی اوقات کا اندازہ ہوگا اور بے بس جیسے لفظ کی ڈھال تسلی کی تھپکی دے گی اور سب کچھ جوں کا توں رہ جائے گا، پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان کو شیروانی پہنے کی 3 بار ہوجانے والی مشق نے اتنا تو طاق کردیا ہے کہ 2018 کے الیکشن کے ہونے کی دیر ہے اور سب کچھ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا، نگران وزیراعظم کون ہونا چاھئے کہ اس سوال سے تحریک انصاف اس وقت خود کو دور رکھ رہی ہے شاہد خاقان عباسی اور اپوزیشن لیڈر کی ملاقات میں سابق چیف جسٹس آف پاکستان تصدق حسین جیلانی کا نام سامنے آیا ہے تصدق حسین جیلانی سپریم کورٹ کے 21 ویں منصف اعظم رہے انکے علاوہ اسٹیٹ بینک کے سابق گورنر عشرت حسین کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ پاکستان کے نامور مصنف، دانشور، ماہرِ ابلاغیات، سینٹ کے سابق رکن اور سابق وفاقی وزیر جاوید جبار کا بھی نام لیتے نظر آرہے ہیں، سننے میں آیا ہے کئی اینکر رز کو بھی نگران سیٹ اپ میں جگہ مل سکتی ہے، اب اس بات کو ہضم کرنا زرا مشکل ہے کہ کیونکہ پاکستان تحریک انصاف کی مالا جھپنے والے مسلم لیگ ن سے زاتی عناد رکھنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کو صوبے کی جماعت تصور کرنے والے بڑے بڑے اینکرز کتنے غیرجانبدارہیں اور کون کون ہیں آنکھیں بند کر لیں سب آپکو دیکھائی دیں گے میرے تمام ساتھی اینکرز سے معذرت کے ساتھ، وجہ یہ ہے کہ اب اس میڈیابٹورے پر، جیداینکرز یہ بھی کہتے ہیں کہ دنیا بھرمیں میڈیا تقسیم ہے جو اے بی سی کی پالیسی ہے وہ فوکس نیوز کی نہیں جو بی بی سی کا انداز ہے وہ سی این این کا نہیں، دلیل میں وزن ہے لیکن جب آپ ان کی تقسیم کی تقلید پر ہیں تو یہ بھی دیکھ لیں کے انکی تقسیم میں جمع انکا ملکی مفادہے جسکی ہمارے ہاں شدت سے کمی موجود ہے آپ کرکٹ میں ہی دیکھ لیں ہمارے کچھ کرکٹرز کو اپنی ہاف سنچری کی اتنی فکر ہوتی کیونکہ زاتی سے اجتماعی معاملہ فہمی سمجھنا بہرحال ہر ایک کہ بس کی بات نہیں، جی تو چاھا رہا ہے کہ اور بہت کچھ لکھوں لیکن اخبار کے ایڈیٹر صاحب پھر شایدطویل تحریر کو جگہ نا دیں سکیں اس لئے لفظوں کو سمیٹنے میں ہی عافیت ہے۔
عرض یہ کہ چیف جسٹس صاحب نے کمر کس لی ہے اور انھوں نے صاف صاف کہہ دیا ہے کہ ایک سال میں نظام کی بہتری کے لئے کام کرنا ہے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں ریلوے میں ہونے والے 60 ارب کے خسارے کے معمالے پر سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریلوے کے وزیر خواجہ سعد رفیق سے مکالمہ کرتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ وہ وقت گیا جب آپ عدالتوں کوبے توقیر کرتے تھے عدالتوں کے سامنے اتنا جارحانہ انداز نہ اپنائیں ہم توہین عدالت کی کاروائی کریں گے، پی آئی کی زبوں حالی پر بھی چیف جسٹس نے واضح کیا ہے کہ تمام سابقہ ایم ڈیز اس ادراے کے مجرم ہیں اور سب سے حساب لیا جائے گا بلکہ چیف جسٹس نے لفظ غدار سے بھی نواز ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ جو بیٹراٹھایا گیا ہے اسے نتائج کب تک واضع ہوں گے، ، یاد رہے نواز شریف صاحب کی تاحیات نااہلی کے بعد آئندہ آنے والے الیکشن یقینا سرپرائز دیں گے یاد رہے اٹھائیس جنوری 2018 کو لاہور رجسٹری میں زینب قتل کیس کی اہم سماعت کے دورا ن چیف جسٹس سے ایک صحافی نے کہاکہ جناب نواز شریف صبح وشام عدلیہ پر تنقید کررہے ہیں اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہمیں کوئی روک نہیں سکتا جب نوٹس لینا ہوگا لیں گے، اب مسلم لیگ ن کم ش زیادہ م موجود کی انتخابی تیاری تو لگتاہے اڈیالہ سے شروع ہوگی جس میں حروف تہجی کے اعتبار سے ش پہلے ہے اور ن اور م سے دور بھی تو اسکی بقاءکے آثار تو ہیں لیکن چونکہ م ن کے بعد ہے تو ن کا فیصلہ تو گیااب م کی باری ہے۔