ریپ کیا ہے؟ یا کروایا گیا ہے؟ ، گینگ ریپ، اس پورے معاشرے کا ہواہے، ہو سکتا ہے، بہت سخت تحریر محسوس ہو اور اگر ایسا لگے تو آپکو پوری اجازت ہے کہ اسکو ایک عورت کی بے بسی اور کمزوری نہیں بلکہ اس معاشرے کی کلک سمجھ کر بھول جائیں، جو اسکے چہرے پر چمٹ گئی ہے آپ دیکھیں یا نا دیکھیں یا پوری طرح سے آپکو نظر آئے گا، اب ہے کسی میں ہمت تو کرے صاف، مجھے کہتے ہیں تم بے باک ہو، بے دھڑک ریپ کا لفظ استعمال کر رہی ہو، اسکو کچھ اور کیوں نہیں کہتی، ہاں میں بے شرم ہوگئی ہوں کیونکہ معاشرے کے شرم کے مینارے خود بے لباس ہیں، ایک عورت آہستہ بات کرے، ایک عورت کب کیسے اور کس طرح گھر سے نکلے آپ کون ہیں جو مجھے بتائیں گے، عورت کو پیر کی جوتی سمجھنا آپ چھوڑ نہیں سکتے اور میں نا کل پیر کی دھول تھی اور نا آج پیر کی جوتی ہوں، اور اگر جبر اور طاقت سے اسکو جوتی سمجھا تو یاد رکھنا جوتا کاٹ بھی لیتا ہے، جو کہ ابھی تک نہیں کاٹ رہا، لیکن تم میرے جسم اور روح کے ہر حصے کو ہر روز کاٹتے ہو، تم نا ذہنی مریض ہو نا نفسیاتی مریض تم ایک جنسی حوس کی بدمست بدروح ہو، تم کو پانچ سال کی بچی سے لیکر قبر میں پڑی مردہ عورت تک میں اپنے غلیظ نفس کی بدبودار خواہش کے مکمل کرنے کا چسکا نظر آتا ہے، قوانین کے بے شمار اور طاقت ور ہونے کا ڈر کسی کو نہیں کیو نکہ یہاں طاقت ور چوہدری اور ویڑے کے مزارے بھی طاقت ور ہیں کیونکہ وہ اپنے صاحب کے لئے جو سامان آسائش مہیا کرتے ہیں اسکے بعد اپنی تسکین کو اسکے اثر رسوخ کی آڑ میں پورا کرنا اپنی بخشش سمجھتے ہیں۔
یہ جو کچھ جو کئی سالوں اور صدیوں سے ہو رہا ہے یہ آخر رک کیوں نہیں سکتا، زینب کے ریپ اور قتل کے بعد مجھے لگا تھا کہ شاید اب کوئی عمران علی نہیں بنے گا، لیکن فرشتے، مروہ سے لیکر یہ موٹروے کا گینگ ریپ اس نے تو یہ بتا دیا کہ یہ ایسے نہیں رکے گا، پھانسی کی سزا کا مطالبہ جذباتی ہو سکتا ہے، لیکن مجھے یہ سمجھنے میں کوئی عار نہیں کہ پھانسی دینے سے مسئلہ کم یا ختم نہی ہونے والا، اسکے دائمی حل کی تلاش میں ایک طویل عرصہ درکار ہے، یورپ کے گلی کوچوں میں بھی یہ سب ہوتا ہے وہاں بھی بڑے احتجاج ہوتے ہیں حقوق کی آواز اٹھائی جاتی اور اسکی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انکا شعور جاگ رہا ہے، مجھے تسلی ہے اس بات کی کہ نوجوان دیکھ رہے ہیں کہ یہ کس قدر جبر ہے کہ ایک عورت گینگ ریپ کا شکار ہو یا ریپ کا شکار ہو اور اسکے بعد اسے اس بات کا یقین ہو کہ سسٹم ایسا ہے کہ دو چار دن کے بعد کچھ نیا ہوگا اور سب یہ آہ و بکا بھول جائیں گے، کرا چی میں ایک زمانے میں ہتھوڑا گروپ سرگرم رہا، پھر ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بعد ہے کہ چڈا گروپ کے نام سے ایک گروپ کا نام آیا جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ عورتوں کا ریپ کرتے ہیں، اس زمانے میں شدید خوف کی فضا رہی کچھ ایسی لڑکیوں کو میں جانتی ہوں جو اس خوف سے شدید دباؤ میں رہی، مجھے آج اس معاشرے میں اس خوف کی بد آرہی ہے، میں کیسے اس معاشرے، اسکی پولیس اسکی تفتیش، اسکے عدل پر یقین کروں، میں کیسے اپنے وجود کوچھپاوں کے کہ مجھے ہر اٹھتی آنکھ میں ایسا لگتا ہے کہ وہ مجھے اسکین کر رہی ہے، پتہ نہیں میں حالت جنوں میں ہوں کیا کیا بک رہی ہوں، لیکن اس معاشرے کی ڈری مجبور، اور طاقتور اور باصلاحیت عورت کو یہی خوف ہے، گینگ ریپ جس مقام پر ہوا وہاں اندھیرا تھا، وہ عورت کیا ان کو پہچان سکے گی، کیا ملزمان مجرمان ثابت ہوسکیں گے، کیا انصاف ہو سکے گاکیا، ان بچوں کے ذہنوں سے ماں سسکیاں وہ خوف کبھی ختم ہوسکے گا، وزیراعظم کے حالیہ بیان کے مطابق ایسے مردوں کو جو عورت کے جسم کو کھلونا سمجھتے ہیں معصوم کلیوں کو اپنی حوس کا نشانہ بناتے ہیں، میری پنجاب میں پولیس کے کچھ ذمہ داروں سے بات ہوئی ہے انکے مطابق اس سال یکم جنوری سے لے کر 31 جولائی تک سات ماہ کے دوران پنجاب بھر میں 2043 زیادتی کے کیسز درج ہوئے جن میں سے 1371 کا چالان پیش کر دیا گیا، 295 مقدمات زیر تفتیش ہیں جبکہ 375 مقدمات واپس لے لیے گئے ہیں، سی سی پی او لاہور عمر شیخ سے متعلق جو کچھ آئی بی رپورٹ میں لکھا گیا ہے اسکے بعد، ایک عورت جو گینگ ریپ کا شکار ہوئی ہے اسکو یہ کہنا کہ کہ اس وقت اکیلی نکلی کیوں بلکل درست لگتا، معافی مانگ جس انداز میں قہقہ لگایا ان صاحب نے یہ اس سسٹم کے چہرے پر ایک اور تماچہ ہے، وزیراعظم کے مطابق، وزیر اعظم نے کہا جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کے لیے نئے قانون کی ضرورت ہے، جنسی جرائم میں ملوث مجرموں کی سرجری کر کے ناکارہ کر دینا چاہیے۔ مجھے نہیں معلوم یہ تجویز کتنی کار گر ہے، لیکن میں وزیراعظم جناب عمران خان، آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، اور چیف جسٹس پاکستان سے اپیل کرتی ہوں کہ خدا کو واسط ہے اس معاشرے سے اس ریاست پاکستان سے خوف کی فضا کو ختم کریں، انسانوں کو زندہ اور آزاد رہنے دیں۔
تفتیش ابھی جاری ہے، لیکن بہت کچھ ابھی بھی نظر نہیں آرہا اور خدا نا کرے جیسا میں سوچ رہی ہوں، اسکا ایک فیصد بھی سچ ہو ورنا۔ لکھنے کی تاب نہیں کل اینکر پرسن فریحہ ادریس نے اے آر وائی پر ارشد شریف کے پروگرام میں بتایا ہے کہ عورت نے ایک ہزار کا پیٹرول ٹیلی فون کال پر مانگا تھا، اور جاتے ہوئے ملزمان ایک ہزار ڈیش بورڈپر رکھ کر گئے تھے۔ تفتیش کی ہر ہر زاویے پر پوری طرح سے چھان بین اہم ہے۔ ابھی میں میں بہت کچھ کہنا چاھتی ہوں لیکن کبھی اور سہی۔