اخبار ہو ٹی وی یا ریڈیو، یہاں خبروں کی اہمیت کا اندازہ لگانا بہت آسان ہے جو خبر بڑی ہوتی ہے وہ ہیڈ لائن میں جگہ بناتی ہے، اخبار کی لیڈ ہوتی ہے، یا ریڈیو کی اہم خبر بن جاتی ہے، لیکن اب خبر پسند کی بنیاد پر جگہ بناتی ہےاسکا مطلب ہے کہ خبر کاپس منظر اور اسکی اہمیت کہیں دور ہے اب صرف پسند نا پسند معیار بن گیا ہے، ایک بہت سینئر صحافی نے کہا کہ آج کل جرنلزم نہیں ہو رہا، سب ڈاکیہ بن گئے ہیں۔ اب اس کا دورانیہ کتنا طویل ہوگا اس پر کچھ نہیں کہا جاسکتا، گزارش یہ کہ، موجودہ اپوزیشن کا حشر نشر دیکھ پاکستان کی سیاست کے زیرک سیاست دان ہوں یا نووارد سیاست دان سب کو ہی 80 اور نوے کی دہائی کے سیاست کے سارے منظر یاد آرہے ہیں، جیالے کہیں ڈھکے چھپے انداز میں بات کرتے ہوئے کہہ رہے ہیں، کہ جس بے نظیر بھٹو کو عدالتوں میں اسکے بچوں کے کے ساتھ گھسیٹا، آج مکافات عمل ہے، کہیں ن کے شیر کہتے ہیں ہم تو آمر پرویز مشرف کےعتاب سے نکلے ہیں ہم نے طیارہ ہائی جیک سازش کو بھگتا ہے، پھر یہ جبر کیسا، باقی سیاسی جماعتیں بھی کچھ یونہی نوحہ کناں ہیں۔
یہ بات تو وقت نے ثابت کی ہے کہ ہر عروج کو زوال ہے، لیکن سب کچھ جانتے ہوئے بھی ہمارے رویے نہیں بدل رہے اسکا مطلب ہے کے زندگی اور سیاست کا کارواں ایسے ہی چلنے والا ہے، اور اس پر گریہ و زاری بے کار ہے، ہاں یہ ضرور ہے کہ فیصلے کرنے کا اختیار، اور اس اختیارکو استعمال کرنے کا وقت اور اسکی اہمیت پر بات کی جاسکتی ہے، ریاست میں قانون کی عملداری اور کرپشن کا خاتمہ ملک کی بنیادی ضرورت ہے لیکن ہر ضرورت کی ایک قیمت ہوتی ہے، دیکھنا یہ ہے کہ منصب اقتدار کے مکین اس قیمت کا احساس رکھتے بھی ہیں یا نہیں، ویسے یہ اقتدار کی طاقت بھی عجب شہ، یہ آپ سے وہ وہ کرواتی ہے جو شاید آپ کچھ لمحوں کے لئے اگر ٹہر کر سوچیں تو تو کبھی نا کریں۔
جس وقت میں یہ کالم لکھ رہی ہوں، ذرائع کے مطابق کابینہ اجلاس کے بعد زیرو آور اجلاس ہوا جس میں وزیر اعظم عمران خان نے اپنے معاونین اور مشیران سے کہا ہے کہ نواز شریف کو وطن واپس آکر عدالتوں کا سامنا کرنا ہوگا این آرو کسی صورت نہیں ملے گا اور نواز شریف کو ہر صورت ملک واپس لائیں گے، اور برطانوی حکومت سے اس ضمن میں رابطہ کیا جائے۔ عمران خان کہتے ہیں، کہ نواز شریف بیماری کا بہانہ بنا کر بھاگ گئے ہیں کسی صورت کرپشن برداشت نہیں کریں گے، یہاں یہ بتا دوں کہ زیرو آور اجلاس کا مطلب ہوتا ہے ایک ایسی میٹینگ جو ایک گھنٹے سے بھی کم وقت پر محیط ہو یعنی اسکا دورانیہ 15 یا 20 منٹ تک کا ہوتا ہے۔ اب اس مختصر دورانیہ کا اہم ترین فیصلہ کتنا موثر ہوگا یہ ایک الگ سوال ہے اور میں آپکو بتا دوں 29 ستمبر جب میں یہ تحریر کررہی ہوں 30 ستمبر کے اخبار کی سرخی بھی یہی ہوگی، اس خبر میں پسند کا عنصر اہمیت کے ساتھ ہے اتنا آسان ہے خبر کی اہمیت کا اندازہ لگانا، اس وقت بہت شور ہے پریس کانفرسیز کا بیانات کا، لیکن ایک طویل اور بہت معنی خیز خاموشی ہے شاید آپکو احساس نا ہو لیکن، محسوس کریں، تائید ملے گی، بس جب یہ ٹوٹے گی تو مکافات عمل کا ایک نیا دور ہوگا!!
یہی میرا نکتہ ہے جو فیصلے اور اختیارات آج استعمال ہو رہے ہیں وہ گزشتہ ادوار میں بھی ہوتے تھے اور آج بھی ہورہے ہیں اور آئندہ ادوار میں بھی ہوں گے یہ جانتے ہوئے کہ مکافات عمل ہے۔ ایم آر ڈی ہو، آئی جے آئی ہو، یا موجودہ اپوزیشن کی پاکستان ڈیموکریٹ موومنٹ یہ سب تحریکیں جمہوریت کی بحالی کے نام پر ہیں، اب میرے پڑھنے والے زرا سی زحمت کریں اور پاکستان کی جمہوری تاریخ کو پڑھ لیں، لیکن مجھے ایک سوال کا جواب بھی دے دیں، یہ اپوزیشن پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو جمہوری حکومت کیوں نہیں سمجھتی؟