گھر میں پٹاری ہے؟ اچھا سینی ہے، زرا دیا سلائی ہی دیکھ لو، سنیں یہ دوات کا نام سنا ہے اوہ ہو، ، اچھا اپنے پاپوش ہی ڈھونڈ لیں، آپکو لگ رہا ہوگا کہ یہ میں کونسی زبان میں بات کرنے کی کوشش کررہی ہوں اورر کہیں ایسا تو نہیں کہ اردو کے چار لفظ پڑھ کر اپنی علمیت جھاڑ رہی ہوں نہیں نہیں ایسا بلکل نہیں ہے۔ ۔ اصل میں ہو ا کچھ یوں کہ جس وقت میں تحریر لکھ رہی تھی میاں محمد نواز شریف سابق وزیر اعظم کے چہرے پر جوتا اچھال کر پھینکا جاچکاتھا، اور ٹیلی ویثرن پر ایک نیا پنڈورا بکس کھل چکا تھا کہ اسی اثنا میں سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ لکھی دیکھی جس میں لکھا کہ اردو کے نفازپر اصرار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ آج کے بعد جوتے کو پاپوش کہا جائے تہذیب کا تقاضہ ہے، اس جملے کو پڑھتے ہی مجھے لگا اس میں سب سے اہم لفظ تہذیب اور تقاضہ ہے یوں میں نے الفاظ جانے کے لئے لغت کا سہارا لیا اور اسکے بعد جو سمجھنے کو ملا سوچا آپ کے ساتھ بانٹ لو ں، پا کے معنی پیر اور پوش کے معنی آراستہ کرنے کے ہیں، جب گھر میں اماں کا پارہ ہائی ہو اور کس چھوٹے بھائی بہن کو مطلع کرنا ملطلوب ہو تو اکثر آپ نے سنا ہوگا، کہ تاج پوشی کے لئے تیارہوجاﺅ جیسے الفاظ ادا کئے جاتے ہیں لیکن، درحقیقت تاج پوشی بادشاہوں کی جانب سے اختیار کیا گیا وہ عمل ہے جس میں بادشاہ ایک خاص مدت تک اپنے بادشاہت کی دلیل کے لئے یہ تاج اپنے سر پر سجایا کرتے تھے یا پھر بادشاہ کی منشا اور خوشی کے لئے جب کسی کو انعام واکرام سے نوازا جاتا تو اسکی تاج پوشی ہوتی، ویسے تو میرے پڑھنے والے باشعور لوگ ہیں ہیں لیکن بعض اوقات اپنی بات کہنے کے لئے کسی سند کی ضرورت پڑتی ہے عرض یہ ہے کہ تہذیب کے فقدان کی کمی زبان زد عام ہے، اور ہماری عادت بن گئی ہے کہ ہم دلیل دینے کے بجائے زلیل کر کے بات پہنچانے کے عادی مجرم ہوتے جارہے ہیں۔
آپکو یاد ہوگا ایک نام منتظرالزیدی انکا تعلق بغداد کے ٹی وی چینل سے تھا اور وہ وہاں بطور صحافی کام کرتے تھے منتظرالذیدی نے، پہلی بار 2008 میں امریکہ کہ اس وقت کے صدر جارج بش کوایک پریس کانفرنس میں جوتا پھینک کر مارا لیکن صدر بش نے پھرتی دیکھائی اور وار خالی گیا، لیکن جن صاحب نے صدر بش پر جوتا پھینکا تھاانھیں اس حرکت کی سزا بھی بھی ملی اور وہ دوران سزااپنے اچھے عمل کی بنا پر رہا بھی ہوگئے، بڑی معذر ت کے ساتھ اس عمل کی بنیا رکھنے والوں میں بھی ایک صحافی کا ہاتھ اور جوتا شامل تھا، اختلاف رائے کو جرم بنا دیا گیا ہے، مجھے یہ لکھنے میں عار نہیں کہ وہ تمام لوگ جو اس عمل کو نا پسندیدہ کہہ کر معاشرے کو مثبت پیغام دے رہے ہیں، اپنے قریبی حلقے احباب میں ضرور اس پر منہ دبا دباکر ہنس رہے ہوں گے، تبصرہ یہ بھی ہوگا کہ دیکھو کس اینگل سے مارا، زرا سا اور قریب ہوتا تو یہ، ، اور وہ، اور نا جانے کیا کیا، سوچے زرا ایک لمحے کو کتنے دوغلے ہیں ہم، صحافیوں برداری سے معذرت کے ساتھ زرا سا سوچیں کے کہ آپ کر کیا رہے ہیں؟ اپنے عمل کو خود اپنے کوڈ آف ایتکھس کے سامنے رکھیں جواب نہ ملے تو کہیے گا، صبح سے شام تک ہر چینل کا اپنا اپنا ایک تگڑا اینکر رنگ مین اتر کر جو پیچ سیکھتا ہے اس پر میرا کچھ بھی کہنا بہت کم ہوگاکچھ لوگوں کی خواہش ہے یہ جوتا عمران خان کو پڑنا چاھئے، کچھ کہتے ہیں مشرف صاحب بھی اسکے حقدار ہیں اور کئی پاک سرزمیں پارٹی کے سربراہ کو اس لیگ کا حصہ بنانا چھاتے ہیں، لیکن انکی خواہش پر عمل کی مہر نہیں لگنی چاھئیے، ہمارے اختلاف رائے نے نفرت کی بنیاد اتنی خاموشی سے رکھی ہے کہ آپ کو اسکا احساس جب ہی ہوتا ہے جب ایک محافظ اپنے مالک کو مار دیتا ہے یا پھر ایک طالب اپنے مکتب خانے میں آئے مہمان پر وار کرکے فضا میں فاتحانہ انداز میں اپنے ہاتھ لہراتا ہے، یہ مناظر اس بات کی نشان دہی کررہے ہیں کہ پانی سر سے اونچا ہوگیا ہے لیکن ہر بار اصلاح کے لئے سرا کیوں ڈھونڈنا پڑتا ہے، کیا اس سب میں بھی قصور حکومت اور فوج کا ایک پیچ پر ہونا یا نا ہونا ہے؟ یا پھر نواز شریف کو نکالنے جانے کے ثمرات، اسکی اصل وجہ ہیں کتنی عامیانہ سے باتیں لگ رہی ہوں گی یہ آپکو ہے ناوہ ہ اسلیے کہ عقل اور دلیل کی کسوٹی پر انکا اترنا مشکل ہے، لیکن ایک بات جو میں ہمیشہ کہتی ہوں، لکھتی ہوں اور سمجھتی ہوں اور وہ یہ کہ، میرے نزدیک عزت پہلے اور مقدم ہے پھر وہ چاھے سابق وزیر اعظم کی ہو یا حاضر چیف جسٹس کی، نواز شریف پر اچھلا گیا جوتا کسی فرد واحد پر نہیں پھنکا گیا بلکہ یہ پورے معاشرے کے چہرے پر پڑا ہے بس محسوس کرنے کی دیر ہے، شدت پسندی کی ا س نئی لہر میں سب کے سب نشانے پر ہیں وہ جو اکساتے ہیں اور وہ بھی جو یہ سوچ رہے ہیں کہ نہیں میرے ساتھ نہیں ہوسکتا، یہ چلن کسی کے بھی حق میں نہیں اسلیئے سب یک زبان ہوکر اسکی بھرپور مذمت کررہے ہیں، نواز شریف صاحب کو اوئے نواز شریف کہنے والے عمران خان صاحب تک نے اس عمل کی مذمت کی ہے لیکن انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ( ایکشن اسپیک لاوڈر دین دی ورڈز)ہم اختلاف برائے اختلاف کی روش پر ہیں ہمارے قول اور فعل میں کھلا تضاد ہے اچانک میرے ذہن میں سنئیر صحافی سہیل وڑائچ صاحب کا انداز گفتگو آگیاآپ بھی ایک لمحہ لیکر سہیل صاھب کے انداز میں خود کلام ہوکر دیکھئے مسکراہٹ لبوں پر ہو گی اور میری ساری باتیں کافور ہوجائیں گی، بس اتنی سی دیر لگتی ہے اور ہما ا زوایہ نگاہ بدل جاتا ہے اور ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ اس جیسے کسی بھی عمل سے ہمارا کیا لینا دینا، بس یہیں گزراش کرنی تھی، کے لینا دینا ہے بھائی اگر ہم آج اس عمل سے لاتعلق ہوگئے تو اس کا شکار ہونے میں دیر نہیں لگے گی اور پھر شکوہ بے سود ہوگا، منور نامی جس شخص نے یہ عمل سابق وزیر اعظم کے ساتھ اختیار کیا مجھے امید ہے کہ اگر اسکی ماں ذندہ ہیں تو انھیں ضرور شرمند گی ہو گی کہ انکی اولاد کو اس قدر لعن طعن کی جارہی ہے، اگر منور کے بچے ہیں تو آج ایک باپ نے اپنی اولاد کو ساری دنیا کے سامنے کیا سبق دیا ہے زرا سوچیں لیکن میں ہاتھ جوڑ کر منور کی ماں سمیت بہت سی ماﺅں اور درسگاہوں کے روح رواں افراد سے پوچھنا چاھتی ہوں کیا آپ اس عمل کی کسی بھی طرح پردہ پوشی کر کے اس کے مثبت ہونے کے سرٹیفیکٹ دینا چاھئیں گے ؟اگر نہیں تو پھر اسکو روکیں، عدم برداشت کے اس نظریے کو روکنا ہوگا، اختلاف رائے پرنفرت کی عینک لگا کر کچھ صاف نہیں دیکھائی دینا الٹا ایسے چکر آئیں گے کہ سب چکرا جائیں گے اور نتیجہ نکلے گا کہ سب کے سب اوندھے منہ پڑے ہوں گے۔ مجھے لکھتے ہوئے یہ سب تکلیف ہو رہی ہے لیکن کچھ سچ اپنے ہونے کی دلیل بہت بروقت دیتے ہیں، تہذیب گھر میں پڑی وہ گھٹری ہے جس کو ہم باوقت ضرورت ہی استعمال میں لاتے ہیں بلکہ بعض گھرانوں میں تو یہ بڑا دقیانوسی سا لفظ رہ گیا، لیکن تہذیب کا رنگ اگر لگ جائے تو خوب چوکھا آتا ہے اور اگر نہ لگ پائے تو بس رنگ کے (ر)کے بجائے( ز) لگا دیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف پر جوتاپھینکے کے عمل نے معاشرے کا لباس کھینچ کر ایسے ایک بار پھر برہنہ کردیا ہے کہ آپ اس عمل کو پاپوش کہیں یا تاج پوش لفظوں کی زینت بھی ایسے ڈھک نہیں پارہی۔ ۔ ۔