اپنے ہاتھوں میں لئے خنجرِ قاتل آئے
خود سے لڑنے کے لئے اپنے مقابل آئے
دادِ سر دیتے رہے نخوتِ دستار کے ساتھ
ایسے ایسے بھی یہاں شہرِ مقاتل آئے
روز ایک زخم لگاتے ہیں اس امید پہ ہم
کوئی منظر تو تری دید کے قابل آئے
بس یہی سوچ کے بہتا ہے یہ دریا اب تک
قافلہ پیاسوں کا شاید لبِ ساحل آئے
کوئی بڑھ کر مری وحشت کو گرفتار کرے
میرے حصہ میں بھی اب طوق و سلاسل آئے
تیری خدمت میں اسے نذر گزاروں مری جاں
اس سے پہلے کے کسی اور پہ یہ دل آئے
اتنا سفاک تو خنجر بھی نہیں ہوتا ہے
بس ترا نام لیا رقص میں بسمل آئے
دل تو شاہدؔ کا بھی راضی نہ تھا اس پہ لیکن
ہم تری بزم سے اٹھ کرکے بمشکل آئے