کبھی کماں تو کبھی دار سے الجھتی ہے
مری اَنا مری دستار سے الجھتی ہے
یہ کون کھینچ رہا ہے مرے لہو کی طناب
زمین پھر مرے رہوار سے الجھتی ہے
عجیب رُت ہے یہ مقتل میں جانثاری کی
ہماری خاک بھی تلوار سے الجھتی ہے
میں تجھ سے کیسے بچھڑ کر، کروں مدوائے غم
مری نظر درو دیوار سے الجھتی ہے
زمینِ دل پہ اُترتی ہیں وحشتیں، پیہم
یہ رات پھر ترے بیمار سے الجھتی ہیں
میں اپنے آپ کو اپنی ہی زد پہ رکھتا ہوں
مری خوشی مرے آزار سے الجھتی ہے
بس ایک نسبتِ موہوم ہی سہی لیکن!
ہماری ڈور ـ"شہریار" سے الجھتی ہے
یہاں تو چلنا بھی شاہدؔکمال ہے دشوار
مری صدا، مری گفتار سے الجھتی ہے