چلو اک اور نیا آسمان دیکھتے ہیں
اب ان شکستہ پروں کی اڑان دیکھتے ہیں
زمیں پکار رہی ہے بچھڑنے والوں کو
مسافروں کو پلٹ کر مکان دیکھتے ہیں
یہ سرکشی بھی عجب ہے مرے چراغوں کی
ہوائے کوچہ نا مہربان دیکھتے ہیں
کوئی تو سیل بلا خیز ہے تعاقب میں
جو کشتیوں کو مری بادبان دیکھتے ہیں
گلوئے خشک جو تیروں کی زد میں تھے کل تک
اب ان کے دست ہدف میں کمان دیکھتے ہیں
یہ شہر دل ہے وہی یا کہ دشت مقتل ہے
ہتھیلیوں پہ یہاں سب کی جان دیکھتے ہیں
دلوں کی بات یہاں پر سنی نہیں جاتی
یہاں پہ لوگ زبان و بیان دیکھتے ہیں