میں کیا ہوں، کون ہوں، یہ بتانے سے میں رہا
اَب خود کو خود سے، خود کو ملانے سے میں رہا
میں لڑ پڑا ہوں آج خود اپنے خلاف ہی
اب درمیاں سے خود کو ہٹانے سے میں رہا
ہے زندگی اسیرِ عدم جانتا ہوں میں
دنیا ترے فریب میں آنے سے میں رہا
مجھ میں کہاں ہے تجھ سے جدائی کا حوصلہ
اے میری جان تجھ کو گنوانے سے میں رہا
وحشت بھی اپنی اتنی تعقّل پسند ہے
دشت جنوں میں خاک اڑانے سے میں رہا
ہاں وضع احتیاط کا قائل نہیں ہوں میں
جو زخم ہے جگر میں چھپانے سے میں رہا
وہ لوگ میرا نام و نسب پوچھتے ہیں اَب
جن کی نظر میں ایک زمانے سے میں رہا
کچھ یار میرے اتنے ستائش پسند ہیں
شاہدؔ اب ان کو شعر سنانے سے میں رہا