درختوں کے بدن کا سبز گہنا چھین لیتی ہے
ہَوائے زرد سب منظر سہانا چھین لیتی ہے
تری بخشش کی اس رُت میں بھی کوئی جبر ہے شامل
ہنسی پھولوں کی کلیوں سے چہکنا چھین لیتی ہے
وہی تعزیر کا بھی حکم دیتی ہے مجھے اکثر
وہی ہاتھوں سے میرے تازیانہ چھین لیتی ہے
حکومت مہرباں ہوتی ہے جب بھی ہم غریبوں پر
نیا کچھ زخم دیتی ہے پرانا چھین لیتی ہے
یہ غربت بھی عجب ہوتی ہے میری جان مت پوچھو!
یہ بچوں کے بھی ہاتھوں سے کھلونا چھین لیتی ہے
مری ان جاگتی آنکھوں سے اُس کو دشمنی کیوں ہے؟
یہ دنیا کیوں مری آنکھوں سے سپنا چھین لیتی ہے
خفا ہوتی ہے مجھ سے زندگی تو انتقاماً وہ
مرے ہونٹوں سے اپنا مسکرانا چھین لیتی ہے
وہی شاہدؔ مجھے دیتی ہے جینے کی دعائیں بھی
وہی جینے کا میرے ہر بہانا چھین لیتی ہے