ایک وقت تھا سلطنت روم کی فوجیں فرانس سے آگے بڑھتے ہوئے برطانیہ میں گھس چکی تھیں۔ ان کے بچے افریقی ملک تیونس کی انجیر، الجیریا کی کھجور اور مصر کا گیہوں کھاتے تھے۔ مراکش تک ان کی حکومت تھی۔ ایشیا کا ساعد سیمیں شام جو دولت کی کان اور تمدن کا گہوارہ تھا، اس پر بھی رومی پھریرے لہراتے تھے۔ ایشیائے کوچک جو میوے کا گھر تھا اس کا مالیہ بھی وہی وصول کرتے تھے۔ عراق سے لے کر آرمینیا تک سب کچھ ان کے زیر قبضہ تھا۔ پھر ہم نے وہ وقت بھی دیکھا کہ اس علاقے میں ایرانی حکمران خسرو پرویز کا طوطی بولنے لگا۔
اس وقت کی کل دنیا کے تینوں براعظم ایشیا، افریقہ اور یورپ منطقہ بحیرہ روم میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اگر ان کو ملانے والی زمین کا مشاہدہ کیا جائے تو مڈل ایسٹ کا وہ علاقہ سامنے آتا ہے جس کا مرکز یروشلم ہے۔ تمام دنیا کی سیاسی و معاشی ترقی کا انحصار ہمیشہ اس علاقے کے امن پر رہا ہے۔ مختلف ادوار میں مختلف اقوام اس علاقے کو کنٹرول کرتی رہی ہیں۔ ابتدائے تاریخ میں آریا تمام ممالک پر قابض رہے۔ اسرائیلی اساطیری بادشاہ داؤدؑ و سلیمانؑ کی وسیع و عریض حکومت کا مرکز بھی یہی تھا۔ یونانیوں کے جھنڈے بھی ادھر لہراتے نظر آتے ہیں۔
گریٹر شام (لبنان، اسرائیل، اردن، عراق، حجاز) پر سلطنت عثمانیہ کا چار سو سال تک زبردست کنٹرول رہا۔ گو اس وسیع تر شام کو ان کی کالونی کہا جاتا ہے لیکن اس دور میں یہ انتہائی پر امن اور ترقی یافتہ علاقہ تھا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد وہ زوال پذیر ہوئی تو علاقائی اور قبائلی لڑائیاں ابھر کر سامنے آئیں۔ ان کے بعد سارا علاقہ فرانس اور انگلینڈ کی کالونیوں میں بٹ گیا۔ اسی دوران صدیوں پہلے ادھر سے نکالے گئے لوگ واپس لوٹ آئے جنہوں نے بعد میں اسرائیل کی بنیاد رکھی۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد آزادی کی تحریکوں کے نام پر مقامی نیشنلسٹ پارٹیوں اور قبائلی گروپوں نے ان مختلف علاقوں پر قبضہ جما کر اپنی حکومتیں قائم کر لیں اور مختلف ممالک وجود میں آئے۔ پھر لڑائیاں شروع ہوگئیں اور مختلف گروپ ایک دوسرے کے خلاف بغاوت کرکے حکمران بنتے گئے۔ کسی ملک میں بھی عوامی حکومت کی بنیاد نہ پڑ سکی۔ بدترین قسم کی آمریتیں دیکھنے میں آئیں۔ جبر کا یہ سلسلہ اب تک چل رہا ہے اور امن دور دور کہیں نظر نہی آ رہا۔
ایران مڈل ایسٹ میں ایک طاقتور حصہ دار ہے۔ دیگر تمام ممالک کے برعکس ایران عرب ملک نہیں۔ قدیم فارس سے اپنی بنیاد کو جوڑتے ہوئے اس نے ثقافتی، تاریخی، معاشی ہر لحاظ سے ہمیشہ اپنی علیحدہ پہچان برقرار رکھی ہے۔ یہ شام عراق لبنان کی طرح انتشار کا شکار بھی نہیں ہوا لیکن امام خمینی کے انقلاب نے اسے خونی رنگ میں ضرور رنگ دیا اور دیرینہ بادشاہت کی جگہ پر مذہبی آمریت قائم ہوگئی۔ امام خمینی کے توسیع پسندانہ اقدامات نے اسرائیل اور عرب حکمرانوں کے خلاف مزاحمتی گروپوں کو سہارا دیا۔ اتحادی جہادی تنظیمیں یمن سے لے کر لبنان تک ہر جگہ مضبوط ہوتی گئیں۔
امریکی حملے کی ناقص منصوبہ بندی کے بعد عراق پر بھی اپنا اثر و رسوخ جما لیا۔ حافظ الاسد کے بعد شام مکمل طور پر اس کی جھولی میں آ گرا۔ 7 اکتوبر کے حماس کے حملے نے سب کچھ بدل دیا۔ ایک سال میں غزہ اور حماس مکمل طور پر تباہ ہو گئے۔ حزب اللہ مکمل پسپائی پر مجبور ہوگئی۔ اب یمنی حوثیوں کی باری ہے اور اسرائیل نے اس پر حملے شروع کر دیے ہیں۔ اس جنگ کا سب سے بڑا نقصان شام میں بشار الاسد کی حکومت کے گرنے کی شکل میں نظر آ رہا ہے۔ ایرانی اتحادیوں گروپوں کی شکست کے ساتھ ایران بہت کمزور ہوگیا ہے۔ اسرائیلی حملوں کا اس کے پاس کوئی جواب نہیں۔ اب اگر وہ کوئی ایکشن لیتا ہے تو اسرائیل کو روکنا مشکل ہو جائے گا۔
قدرت سیاسی خلا کو ہمیشہ کسی طاقتور سے پر کرتی ہے۔ عثمانی خلا کو فرانسیسی اور انگریزی نوآبادیات نے پر کیا۔ اب یہاں صرف ایک ہی طاقتور فوج بچی ہے اور وہ ہے اسرائیل کی۔
پوری دنیا کی معیشت اس علاقے کے امن سے جڑی ہے۔ بری راستہ ہو یا بحری ہر کسی کو اس علاقے سے گزرنا پڑتا ہے۔ علاقے میں صرف ان ممالک میں سکون ہے جن کے اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں یا وہ وائیٹ ہاؤس سے ہدایات لیتے ہیں۔ جغرافیائی، سیاسی اور معاشی حقائق ایک عظیم تر اسرائیل کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ مستقبل بین نگاہیں دیکھ رہی ہیں کہ اسرائیل اپنی انٹیلی جنس اور ہوائی طاقت کے زور پر علاقے کے تمام ممالک پر حکومت کرے گا۔ شاید وہ زمین پر قبضہ نہ کر سکے لیکن حکومتوں پر اس کا قبضہ ہی ہوگا۔
کیا بدقسمتی سے گریٹر اسرائیل امن کا اکلوتا حل بچا ہے؟