کُنجِ دل میں ہے جو ملال اُچھال
روشنی کے کنول اُچھال ، اُچھال
ڈھال تُو اپنے مہر و ماہ و نجوم
دن اُچھال اپنے ماہ و سال اُچھال
بے سپر ہے یہ میری تنہائی
اے مری جان اپنی ڈھال اُچھال
اپنی آسودگئی جاں کے لئے
میرے حصے میں کچھ َوبال اُچھال
ہو کوئی شعر ’’شعرِ شور انگیز‘‘
فکر کوئی ، کوئی خیال اُچھال
آئے گا پھر کوئی جواب اُس کا
تُو فضا میں کوئی سوال اُچھال
خوف آنے لگا کمال سے اب
میرے حصے میں کچھ زوال اُچھال
جو تجھے خود سے منفرد کر دے
کچھ تُو ایسی نئی مثال اُچھال
ڈال پھر سے کوئی دھمال کمالؔ
اپنا نقد سخن نکال اچھال