بوقتِ شام اجڑ کر پکارنا ہوں گی
تمہاری یادیں، شبیں جب گزارنا ہوں گی
یہ ایک زخمی جنازہ ہے میرے کندھوں پر
بتاؤ آنکھیں کہاں پر اتارنا ہوں گی
میں دوستوں پہ جو اکثر بھروسہ کرتا ہوں
یہ عادتیں مجھے اب کے سدھارنا ہوں گی
میں اس کے ناز اٹھانے کو خود نہیں کافی
سو، کائناتیں یہاں پر اتارنا ہوں گی
میں اپنی انگلیاں تکتے ہوئے یہ سوچتا ہوں
کبھی تَو تیری بھی زلفیں سنوارنا ہوں گی
یہ تیرے ہونٹ یہ رخسار یہ تری پلکیں
کہاں کہاں مجھے نظریں اتارنا ہوں گی