لوحِ دل پر کوئی تحریر نہیں ہو سکتی
خواب ادھورے ہوں تو تعبیر نہیں ہو سکتی
اس نے اک بار پکارا "مرے شاعر" کہہ کر
اس سے بڑھ کر مری تشہیر نہیں ہو سکتی
موسمِ گل تھا سو اس لڑکی سے پوچھا میں نے
کیا کوئی ساتھ میں تصویر نہیں ہو سکتی؟
اُس کی آنکھیں ہیں کہ لشکر ہے سکندر کا کوئی
ایک دنیا ہے جو تسخیر نہیں ہو سکتی
اِس جگہ پھول کسی شاخ سے ٹوٹا تھا کبھی
سو یہاں کوئی بھی تعمیر نہیں ہو سکتی
جس نے بھی تھاما وہ اک روز جدا ہو کے رہا
وہ کلائی کبھی زنجیر نہیں ہو سکتی
تو بلائے گا تو اک لمحے میں لوٹ آؤں گا
اس سے زائد مجھے تاخیر نہیں ہو سکتی