مجھ پہ جب یاد تری طاری بہت ہوتی ہے
رات پھر جاں پہ مری بھاری بہت ہوتی ہے
اپنے ہاتھوں سے مرے دل کو نہ تعمیر کرو
رات اکثر یہاں مسماری بہت ہوتی ہے
دل کسی طور نہیں سونپتی وہ زر کے عوض
اک طوائف میں بھی خودداری بہت ہوتی ہے
پسِ پردہ مرے حاکم، اے محافظ یہ بتا
کیوں ترے خون میں غداری بہت ہوتی ہے
تُو نہیں ہے تَو ہر اک لمحے میں نہ جانے کیوں
سانس لیتے ہوئے دشواری بہت ہوتی ہے
سرِ مقتل بھی سنا ہے کہ شفا بانٹتا ہے
شہر میں جس کی عزاداری بہت ہوتی ہے