نصیب بگڑے تو کاتب ازل کے دیکھتے ہیں
تری تلاش میں رستے بدل کے دیکھتے ہیں
گلاب ہم کو میسر کبھی بھی تھے ہی نہیں
سو تیری انگلیاں آنکھوں پہ مل کے دیکھتے ہیں
ہمیں یہ خطرہ ہے آنکھیں نکل نہ آئیں کہیں
سو سورجوں کو ہم ایسے سنبھل کے دیکھتے ہیں
چلو خدا کے لئے آج ساقی کے در پر
چلو کہ ہم بھی ذرا سا بہل کے دیکھتے ہیں
وہ میرے ساتھ چلے تو یہ دنیا والے سبھی
حسد جھلکتا ہے، ایسے مچل کے دیکھتے ہیں
گمان ہوتا ہے خود بھی وہیں پہ رہ گئے ہوں
تمہارے شہر سے جب بھی نکل کے دیکھتے ہیں
گلوں کو دیکھا ہے میں نے بہار میں اکثر
تمہارے حسن کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں