پھر وہی کانٹوں بھری دنیا گوارا کرکے
ہم نے دیکھا ہے محبت کو دوبارہ کرکے
تو کبھی پلکوں کی جنبش کا تکلف کرتا
ہم کہ چپ چاپ چلے جاتے کنارا کرکے
مستقل کچھ بھی کبھی مجھ سے نہیں ہو پایا
عشق بھی چھوڑ دیا میں نے ادھورا کرکے
تم نے تو خیر بچھڑنا ہی تھا اک روز مگر
خود کو یونہی کیا برباد تمہارا کرکے
رات تھی آنسو چھپانے میں مدد کرتی تھی
کیا ملا ہے تجھے مالک یوں سویرا کرکے
میرے جیسوں کا کیا ہم نے تو بس رونا ہے
تم تو خوش ہو نا مری جان کنارا کرکے
اس کے ہونے سے چمکتی تھیں ہماری آنکھیں
پھر وہ اک رات یونہی چل دی اندھیرا کرکے
بھر ہی دیتا ہے یہاں وقت سبھی زخموں کو
جی ہی لیتے ہیں یہاں لوگ گزارا کرکے