گھر لوٹ کے آ جائے دوبارا اسے کہنا
مشکل ہے مرا اب کے گزارا اسے کہنا
ہنستے ہوئے رخسار نکھر آتے ہیں اس کے
ہنستے ہوئے لگتا ہے وہ پیارا اسے کہنا
وہ رکھ لے وراثت میں یہ جاگیریں وغیرہ
تنہائی مگر حق ہے ہمارا اسے کہنا
اک شب مَیں تسلسل سے اسے مانگ رہا تھا
اک شب کوئی ٹوٹا تھا ستارا اسے کہنا
بھٹکے نہ کہیں ریت کے دریا میں وہ ملّاح
مل جائے گا اک روز کنارا اسے کہنا
یہ حضرتِ عباسِ علمدار کا پرچم
رخ پھیرے گا مشکل کا پھریرا اسے کہنا