بہتے دریاؤں کا دکھ دیکھا بیابانی نے
ریت کا کتنا ہی نقصان کیا پانی نے
ایک اجلی سی یہ چادر ہی تو بس ہوتی تھی
اسے احرام کیا چاک گریبانی نے
میں تجھے بھولنا آسان سمجھتا تھا مگر
بڑی مشکل میں رکھا ہے مجھے آسانی نے
خود کو اک عرصے سے محسوس نہیں ہوتا میں
ترے پامال کو یوں کھایا ہے ویرانی نے
ہر سہولت سے اسی واسطے منہ موڑ لیا
سیر رکھا ہے مجھے بے سر و سامانی نے
آخرِ کار عصا پر ہی وہ موقوف رہے
ساتھ جب چھوڑ دیا تختِ سلیمانی نے