سر جیمز لائل ۱۸۳۸ کو سرے برطانیہ مین پیدا ہوئے۔ ۱۸۵۷ کو وہ برٹش سول سروسز میں بھرتی ہوئے اور ان کی پوسٹنگ بنگال، برٹش انڈیا میں ہوئی۔ جس کے بعد بحیثیت کمشنر انہوں نے پنجاب اور میسور میں خدمات انجام دیں۔ ۱۸۸۷ کو لائل لیفٹننٹ گورنر متحدہ پنجاب مقرر ہوئے۔ اس دوران انہوں نے پنجاب کا دورہ کیا اور یہاں کے مسائل سے آگاہی حاصل کی۔ انہوں نے دیکھا کہ یہ سرزمین بے انتہا زرخیر ہو سکتی ہے، یہاں سے پانچ دریا گزرتے ہیں مگر حالت یہ ہے کہ یہاں پر لاکھوں ایکڑ زمین بنجر ہے کیوں کہ وہاں تک دریا کا پانی ہی نہیں پہنچ پاتا۔
وہی دریا جو ان کے لیے خدا کی رحمت ہونے چاہیے وہی برسات کے مہینوں میں شیروں کی طرح دھارتے ان پر پل پڑتے اور ہر چیز تہ و بالا کر جاتے، اس کی وجہ تھی، پانی وافر تھا مگر نظام تقسیمِ آب نہ تھا۔ سارا پانی دریائے سندھ میں بہ کر بحیرہِ عرب مین جا گرتا اور یہاں کی زمین پیاسی رہ جاتی یا پھر بارشوں کا انتظار کرتی کہ وہ برسیں اور پیاسی دھرتی سیراب ہو۔
یہ تمام معاملات سر لائل نے دیکھے اور ان کا بغور جائزہ لیا جس کے بعد انہوں نے پنجاب کے نہری نظام بنانے پر کام شروع کیا۔ انہوں نے ستلج، بیاس اور جہلم جو تمام سال پانی سے بھرے رہتے تھے ان میں سے رابطہ نہریں نکالیں انہیں پورے پنجاب مین پھیلانے اور ان کے درمیانی علاقوں کو نہری کالونیاں بنانے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک انقلابی قدم تھا جس کے تحت وہ علاقے جو ان دریاؤں کے درمیان تھے جو بنجر پڑے تھے وہاں سے رابطہ نہریں نکلیں اور اس طرح ۹ نہری کالونیان ( سندھائی کالونی، سوہاگ پارا کالونی، چونیاں کالونی، چناب کالونی، جہلم کالونی، لوئر باری دوآب، اپر چناب و جہلم، نیلی بار کالونی) وجود میں آئیں۔ ان کالونیوں کی بدولت ساٹھ لاکھ 60 لاکھ ایکڑ بنجر زمین زرخیز زمین میں بدل گئی، دس لاکھ لوگ ان زمینوں میں آباد ہوئے انہوں نے کاشت کاری شروع کی۔ ایک وقت آیا کہ اسی نہری نظام کو جو سر لائل نے پنجاب کو دیا اسے دنیا کا سب سے بہترین انسانی تعمیر کردہ نہری نظام قرار دیا گیا اور اسی نہری نظام کا نتیجہ یہ نکلا کہ قیامِ پاکستان سے پہلے پاکستان کی نہری زمین کا رقبہ ۳۰ لاکھ سے بڑھ کر ایک کروڑ ۴۰ لاکھ ہو چکا تھا۔ غریب کاشتکار کی فصلوں کو پانی ملنے لگا وہ ساہوکاروں کے قرض کے چنگل سے نکلنے لگے۔ گندم، کپاس اور گنے کی فصل کی پیداوار میں یکسر زبردست اضافہ دیکھنے میں آیا جس سے علاقے میں معاشی خوشحالی آئی۔ یہ ایک انقلاب تھا اور جس کا سہرا سر جیمز لائل کے سر تھا۔
نہری نظام کو قائم کرنے کے بعد آپکی توجہ چناب جالونی کی طرف گئی اور آپ کی دور رس نگاہوں نے اس علاقے کی مستقبل میں اہمیت سمجھتے ہوئے وہاں ایک شہر بسانے کا فیصلہ کیا۔ اس علاقے میں اس وقت آبادی بہت کم تھی تقریباً ایک مربع میل میں سات ۷ لوگ رہتے تھے۔ لیکن آپ سمجھتے تھے کہ یہ زمین مستقبل کا معاشی مرکز ثابت ہو سکتی ہے آپ نے اس علاقے کے لیے ایک شہر ڈیزائن کروایا۔ اور یوں ایک شہر تعمیر ہوا جس کا نام سر جیمز لائل کے نام پر لائل پور بنا اور لائل پور کو برِ صغیر کا اولین باقائدہ منصوبے کے تحت تعمیر ہونے والے شہروں میں سے ایک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔
لائل پور کی تعمیر کے بعد اس سرزمین کی فی مربع میل آبادی ۷ سے ۱۸۷ پر جا پہنچی۔ اور پھر اسی شہر نے آبادی میں اضافے کا ریکارڈ بنایا جب اس کی آبادی ۱۹۶۱ میں ۱۹۴۱ کے مقابلہ میں بیس برس میں ۵۰۸% اضافہ رکارڈ کیا گیا۔ آج وہی لائل پور پاکستان کا تیسرا گنجان آباد ترین شہر بن چکا ہے اور اس کی GDP کراچی اور لاہور کے بعد پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔ اس شہر کا پاکستان کی ایکسپورٹ اور پاکستان کے لیے زرِ مبادلہ کمانے میں بڑا کردار ہے جس سے ہماری معیشت کو بڑا سہارا ہے اسی وجہ سے اسے پاکستان کا مانچسٹر کہا جاتا ہے۔
لائل پور سر جیمز لائل کی نشانی تھی اور بجا طور ہر یہ خوبصورت شہر ان کے نام پر رکھا گیا اور اس کے شہری جب بھی لائل پور کہتے تو ان کے دل سے سر جیمز لائل کے لیے تشکر آمیز جذبات ہوتے تھے۔
لیکن پھر ۱۹۷۹ آیا اور اس وطن کے اوپر ضیائی آمریت کا سیاہ دور شروع ہوا اور اس ملک کی شناخت، ثقافت اور روایات کو بدلنے کا کام شروع ہوا۔
ہم ایک آزاد ریاست سے طفیلی ریاست اور کرائے کے غنڈے کا روپ دھارنے لگے۔ حکمرانوں نے دوسرے ممالک کے حکمرانوں سے ملک کی بجائے ذاتی تعلقات بنانے شروع کیے۔ اور اسی سلسلے میں غیر ملکی حکمران کی خواہش پر اس کی خوشامد کرتے ہوئے اس خطّے کے محسن سر جیمز لائل کے نام پر بنے ہوئے شہر لائل پور کا نام بدل کر شاہ فیصل کے نام پر فیصل آباد رکھ دیا گیا۔
یہ تھی تاریخ اس شہرِ بے مثال کی!
میں نے جب بھی لائل پور کے مشاہیر کو سنا تو انہوں نے کبھی اپنے آپکو فیصل آباد کا رہائشی نہیں بتایا۔ انہوں نے ہمیشہ اپنی شناخت لائلپوری بتائی۔ انہوں نے یہی بتایا کہ ہم جدّی لائلپوری ہیں۔ ہم بیٹھے بٹھائے فیصل آبادی کیسے بن گئے؟ اگر حکمرانوں کو کسی کی خوشامد ہی کرنی ہے تو ایک نیا شہر اس کے نام سے بسا لیں۔ ہمیں انہوں نے نیا نام کیوں دے دیا۔ جس حکمران کے نام پر آپ نے اپنے شہر کا نام بدلا اس نے آج تک اس شہر کے لیے کیا کیا؟ ہماری نئی نسل شاید سر جیمز لائل کے نام سے واقف نہیں کیونکہ نصاب میں آپ کو بن قاسم، غزنوی، غوری اور ابدالی جیسے حملہ آوروں کا تذکرہ تو ملتا ہے مگر اس سرزمین کے محسنوں کا تذکرہ نہیں ملتا۔
میں لائلپوری نہیں لیکن میرا تعلق اس سرزمینِ پنجاب سے ضرور ہے۔ میری سرزمین میں آج ہر سو ہریالی ہے، میرے کھیت آج اتنی پیداوار دیتے ہیں کہ انہی کے زرِّ مبادلہ سے ملک چلتا ہے۔ میں جانتا ہوں آج جو یہ سب کچھ ہے اس میں سر جیمز لائل کا احسان شامل ہے اور میں انکا احسان مند رہوں گا۔ وہ آج کینٹ برطانیہ میں مدفون ضرور ہیں لیکن وہ آج بھی اہلیانِ پنجاب کے دلّوں میں لائل پور کے تحفہ کی صورت میں زندہ ہیں۔ اور میں احسان فراموش نہیں جو اپنے محسن کے تحفے کا نام بدل کر اسے کسی اور نام سے پکارنے لگوں۔ میں لائل پور کو فیصل آباد نہیں کہوں گا مبادا کل کو یہ لاہور کو بھی سلمان آباد نہ بنا دیں۔