سندر مندریے،
تیرا کون وچھارا ہو
دلا بھٹی والا ہو
دُلّے دی دھی ویاہی ہو
شیر شکّر پائی ہو
کڑی دا لال پٹاخہ ہو
کڑی دا سالو پاٹہ ہو
سالو کون سمیٹے
چاچے چوری کُٹی
زمیندارا لُٹی
زمینددار سُدھائے
بڑے بھولے آئے
اک بھولا رہ گیا
سپاہی پھر کے لے گیا
سپاہی نے ماری اٹ
سانوں دے دے لوڑی
تے تیری جیوے جوڑی
بھانویں رو تے بھانویں پٹ
سندر مندریے
لوہڑی قبل از تقسیم، پنجابی ثقافت اور دیہاتی زندگی کا ایک اہم تہوار تھا جو سردیوں کے ٹوٹنے پر دیسی مہینے پوہ کے آخری دن 13 جنوری کو منایا جاتا تھا جب کسان کی نقد آور گنے کی فصل پک کر تیار ہوتی تھی اور وہ کسانوں کے لیے خوشی کا سماں ہوتا تھا ۔۔ وہ سب گاؤں والے سردی کی شام کو چوپال میں آگ جلا کے اس کے گرد ہنستے گاتے ناچتے اور جشن مناتے تھا۔۔۔۔۔
دکھ کی بات کہ ملکوں کی تقسیم کے ساتھ ثقافتیں اور تہوار بھی تقسیم ہو گئے۔۔۔ اور اہلیانِ پنجاب نے اپنا ناطہ اس زمین سے منسلک تہواروں سے کاٹ لیا۔۔ یہ تہوار آج بھی منایا جاتا ہے مگر واہگہ کے اس پار۔۔۔ ادھر کے زمیں زادےحلال حرام، بدعت، شرک جیسے مسئلوں میں ایسے الجھے کہ اس زمین سے منسلک تہواروں جیسے بیساکھی اور دیگر کی طرح اس تہوار کو بھی بھول بیٹھے اور شاید اگلی نسل اس زمین سے منسلک آخری تہوار بسنت کو بھی بھول چکی ہو گی۔۔۔
اپنے ہیرو باہر سے آنے والے جنگجؤں اور لٹیروں کو قرار دینے والوں کو شاید یاد نہیں کہ ان کی سرزمین نے بھی ہیرؤں کو جنم دیا تھا۔۔ جن میں سے ایک عبداللہ بھٹی المعروف دلّا بھٹی بھی تھا جس کی قبر میانی صاحب میں حسرت و یاس کی علامت بنی یہ کہ رہی ہے کہ میں تو مسلمان تھا۔۔۔ میں آج بھی پنجاب کی لوک داستانوں اور شاعری میں زندہ ہوں مگر وہ پنجاب اب تقسیم کے بعد دوسری طرف رہ گیا کیونکہ یہاں کے پنجابی مجھے بھول چکے انہیں غزنوی، غوری، ابدالی جیسے باہر کے حملہ آور پسند ہیں دلّے بھٹی، میر چاکرخان، احمد خان کھرل، شاہ حسین، بلھے شاہ، رحمان بابا جیسےاس مٹی کے بیٹے نہیں۔۔۔
آپ کچھ بھی کہیے میں تو سرحد کے پار اپنے ان ہم زبانوں کا مشکور ہوں جو آج بھی روبن ہڈ کو نہیں بلکہ اپنے پنڈی بھٹیاں، پنجاب کے بیٹے دلّے بھٹی کو یاد کرتے ییں جس نے غریب پنجابی بچیوں کو اغوا کر کے عربوں کے بازارِ نیلامی میں جا کے فروخت کرنے والوں لٹیروں سے ان معصوم بچیوں اور لڑکیوں کو آزادی دلوائی۔۔۔ ان کی علاقے کے نوجوانوں سے شادیاں کروا کر تحفظ دیا اور خود سب کا جہیز تیار کر کے انکو پیا گھر سدھارا۔۔۔ جو راتوں کو اٹھ کے غریبوں کی مدد کرتا تھا۔۔ اس کی قبر میانی صاحب لاہور میں ہے مگر کوئی اس پر دیا تک نہیں جلاتا۔۔۔ جب کہ دوسری طرف اسے ہیرو کے طور پر یاد رکھا جاتا ہے، بچوں کو اس کے کارنامے پڑھائے جاتے ہیں۔۔۔
اسی طرح آج کے تہوار سے منسلک لوک گیت میں بھی دلّے بھٹی کو یاد کر کے شاعر یہی کہتا ہے کہ اے سندر مندریے کون ہے دلّا بھٹی جیسا جوان جو تیری حفاظت کرے گا اور تجھے ہر طرح کے بد نظروں اور تکالیف سے بچا کر تیری شادی کروائے گا۔۔۔
بہرحال آپ تمام زمین زادوں کو، سر زمینِ پنجاب کی خوبصورت ثقافت کے وارثوں کو لوہڑی کا خوبصورت تہوار مبارک ہو