آج ۳۱ دسمبر ہے ۲۰۱۸ کا آخری دن، آج دنیا کے بیشتر ممالک میں گزرے سال کو الوداع کہنے اور نئے سال کے استقبال کے لیے تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں۔ باقی مالک کو ایک طرف رکھتے ہوئے فقط ایک شہر کی مثال لیتے ہیں اور دیکھتے ہیں وہاں نئے سال کی آمد پر کیا پلان ہیں۔
دبئی جو ہمارے کراچی سے کم و بیش ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع ہے وہاں نئے سال کے استقبال کے لیے کیا ہو رہا ہے اس کی تفصیل درج ذیل ہے
۱- نئے سال کی آمد کا جشن دیکھنے بیس لاکھ سیاح آئے ہیں۔
۲- پہلے جو کبھی فقط برج خلیفہ پر آتش بازی ہوتی تھی امسال۱۴ مختلف مقامات پر فقید المثال آتش بازی ہو گی
۳- پہلے ایک جگہ ہوتا تھا اس دفعہ نئے سال پر کل ۲۵ جگہوں پر جشن منایا جائے گا
۴- صرف برج خلیفہ کے گرد ۱۲,۰۰۰ سیکورٹی کیمرے نصب ہونگے۔
۵- ۱,۲۰۰ فائر فائٹرز، ۲۰۰ پولیس پٹرول، ۴,۰۰۰ پولیس کی نفری، ۱۸ فرسٹ ایڈ کیمپ، ۲۶۰ ایمبولینس کسی بھی نا خوشگوار واقعہ پر ردِ عمل کے لیے مکمل تیار ہوں گے۔
یہ سب صرف دبئی میں ہونے والے جشن کے لیے ہے۔ یاد رہے امارات کل ۷ امارتوں پر مبنی ملک ہے اور باقی ریاستوں میں ایسے جشن کے الگ تفصیلات ہیں۔ ابو ظہبی جو کہ صدر مقام ہے وہاں سمند کنارے اس مرتبہ گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں موجود ریکارڈ توڑتی سمندر کنارے سب سے بڑی آتش بازی کی جائے گی۔ شارجہ میں سمندری ساحل پر موجود جزیرے پر ہوتی آتش بازی پورے شارجہ کی سمندری پٹی سے نظر آ ئے گی۔ اسی طرح کی تفصیلات دیگر ۴ ریاستوں کی بھی ہیں۔ یہاں ہوٹل انڈسٹری کا یہ حال ہے کہ ڈھونڈے سے بھی کسی ہوٹل میں کوئی کمرہ خالی نہیں۔ مہینوں پہلے سے بکنگ ہیں۔ دبئی شاپنگ فیسٹول کا آغاز ہو چکا ہے۔ لوگ اپنے ممالک سے پورے سال کی بچت کر کے یہاں انہیں خرچ کرنے کو آ چکے ہیں۔
یہ تو ہے تفصیل سرکاری سطح پر ہونے والی آتش بازی کی اب آ جائیے نجی تقریبات کی طرف۔ دبئی جس میں ۱۹۹۳ میں کل ۱۶۷ ہوٹلز تھے جن میں کل کمرے ۹,۰۰۰ تھے جو کہ ۲۰۱۰ میں بڑھ کر ۵۵۰ ہوٹلز اور اس میں ۷۰,۰۰۰ کمروں سے تجاوز کر چکے تھے۔ اور اب تعداد اس سے بھی کہیں ذیادہ ہے۔ اور یہ تمام کمرے ایڈوانس میں بک ہو چکے ہیں۔ مختلف ہوٹلز مالز اور پبلک مقامات پر کنسٹرس پروگرامز ہیں۔ جن میں پانچ تو ہندوستانی ہندی کے کنسرٹس ہیں جس میں بالی وڈ کے فنکار آئیں گے۔ اس کے علاوہ کہیں انگریزی، کہیں افریقی، کہیں جنوبی ہندوستان، فلپائن تو کہیں عربی اور دیگر ممالک کے فنکاروں اپنے فن کا جادو جگائیں گے۔ ان تمام شوز کی تقریبا ٹکٹیں بک چکی ہیں، یکم کو سرکاری چھٹی ہے۔ اس کو یہاں فیسٹو سیزن کہا جاتا ہے۔ ساری رات لوگ مزا کریں گے اور اگلے دن چھٹی کر کے گھر میں آرام کریں گے۔ اس چھٹی کی وجہ ہی یہ ہے کہ دنیا رات کو نئے سال کی آمد پر انجوائے کرے اور چونکہ تھکے ہوں گے سو اگلے دن آرام کریں۔
اسی کے ساتھ چونکہ ہر جگہ دبئی شاپنگ فیسٹول جاری ہے، نئے سال کی آمد پر سیل لگی ہوئی ہے سو بازاروں، شاپنگ مالوں، گلوبل ویلج وغیرہ ہر جگہ خریداروں کا ایک ہجوم ہے۔ دنیا جہان کا مال یہاں دستیاب ہے اور لوگ ایک دبئی آ کر گویا پوری دنیا کی سیر کا مزا لے رہے ہیں۔
مکّرر عرض ہے ابھی یہ سب صرف ایک شہر دبئی کی بات ہے اسی طرح دوسری امارت ابو ظہبی کے اپنے پلان ہیں اور شارجہ، عجمان، راس الخیمہ وغیرہ کے اپنے۔
ہمارا پاکستان دبئی سے ہر حوالے سے کئی گنا بڑا ملک ہے۔ یہاں قدرت کی دی ہوئی ہر نعمت ہے۔ لیکن اب یہاں کا حال سنیے۔
پوری دنیا کی طرح یہاں بھی نیا سال آ رہا ہے۔ یہاں کی ریاست نے اپنے عوام کی تفریح طبع کے لیے کیا انتظامات کیے ہیں؟ سنا ہے نوجوان سڑکوں پر سائلنسر نکلوا کر موٹر بائیک چلاتے ہیں۔ بالکل چلاتے ہوں گے مگر ان کو آپ نے کوئی صحت مند تفریح دی ہے جو وہ ادھر مصروف ہوتے؟ پاکستان موسیقی کے اعتبار سے کبھی بہت آگے تھا بہترین موسیقار گلوکار فنکار لیکن کتنے شوز یا کنسرٹ ہو رہے ہیں آج کی شب؟ وہ تو بھلا ہو ملک ریاض کا جس نے آتش بازی کی بنیاد ڈالی ورنہ سرکاری سطح پر سیاحت کے فروغ کے کیے کیا اقدامات ہیں؟ ہوٹل انڈسٹری سے اعداد و شمار لیجیے کہ نئے سال کی آمد کا آپکے بزنس پر کیا فرق پڑتا ہے جواب ہو گا کچھ نہیں؟
کوئی شاپنگ فیسٹول؟ کوئی نئے سال کی سیلیں؟ جواب ندارد؟
ہاں ڈنڈا بردار جماعتی فورس جگہ جگہ موجود ہو گی، جو لوگوں کے منہ سونگھے گی کہ کہیں کسی نے کچھ پی وی تو نہیں لیا؟ جگہ جگہ ناکے، ہنگامے، لڑائی جھگڑے، بد تمیزیاں ہوں گیا۔ اور یوں ہمارا سال ایک حسرت آمیز انداز میں غروب ہو جائے گا اور اپنی تمام پریشانیاں اور حسرتیں نئے آنے والے سال کو تحفے میں دے جائے گا۔
اب تو تبدیلی آ چکی ہے، نئے پاکستان کے نعرے ہیں، کیا عمران خان صاحب کے زیرِ صدارت کوئی سیاحت کی وزارت ہے؟ جو اس سلسلے میں پالیسی وضح کرے دبئی جہاں صرف ۲۰۱۰ میں ایک کڑور سیاح آئے تھے اور اب تعداد مزید کئی گنا بڑھ چکی ہے ہم دیکھیں کہ ہم سیاحوں کو کس طور اپنے جانب کھینچ سکتے ہیں۔ صرف سیاحت کی صنعت اکیلے ہماری معیشت کو اپنے قدموں پر کھڑا کرنے کو کافی ہے۔ لیکن اس کے لیے وہ سوچ اور عزم چاہیے جس کے ہم ابھی تک منتظر ہیں۔