دیرو بھائی امبانی کے ہاں ۱۹۵۷ کو یمن میں قیام کے دوران بڑے صاحبزادے مکیش امبانی نے جنم لیا۔ اگلے برس ۱۹۵۸ کو دیروبھائی امبانی ہندوستان واپس آ گئے اور بمبئے میں قیام پزیر ہوئے۔ اک سفید پوش آدمی دو بیڈ روم کے فلیٹ میں رہنے والے دیروبھائی نے شروع میں مصالحہ جات کا کام شروع کیا اور ساتھ میں کپڑوں کے کاروبار میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کیا۔ متوسط طبقے سے تعلق کی بنا پر ان کے بچے عام بچوں کی طرح پلے بڑھے۔ سکول جانے کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرتے تھے، اور بمبئے کے درمیانے طبقے کے علاقے میں قیام پزیر رہے۔
زندگی ایسے ہی گزرتی رہی، دیروبھائی کی محنت اور کاروباری سمجھ بوجھ کے ساتھ کاروباری معاملات بہتر ہوتے گئے۔ مکیش تعلیم میں اچھا تھا، اسے امریکہ میں سٹینفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا اور وہ وہاں پڑھنے لگا۔ ان دنوں اندرا گاندھی نے ۱۹۸۰ میں پولیسٹر کے یونٹس لگانے کے لیے لائسنس دینے کی منظوری دی جسے حاصل کرنے کے لیے ٹاٹا اور برلا جیسے بہت سے بڑے بڑے گروپ میدان میں تھے بہرحال شدید مقابلے کے بعد ایک لائسنس دیروبھائی کو مل گیا۔ دیروبھائی نے اپنے بیٹے مکیش کو فوراً واپس طلب کیا جو تب تک سٹینفورڈ سے کیمیکل انجنئیرنگ کر کے ایم بی اے کے لیے داخلہ لے چکا تھا۔ مکیش واپس آتا ہے اور آ کر اپنے باپ کے ساتھ ان کی کمپنی ریلائنس انڈسٹری میں کام شروع کر دیتا ہے۔ اس دوران وہ پولیسٹر کے ساتھ ساتھ پولیسٹر کے خام مال یعنی کپڑے سے ہوتے ہوئے پیٹروکیمکل انڈسٹری تک میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کرتا ہے۔ وہ تمام خام مال جس سے کپڑا بنتا ہے۔ اس دوران اس کے والد دل کی بیماری کے سبب کاروبار پر توجہ اور ذمہ داریاں کم کرتے ہیں اور اب ۲۴ سالہ مکیش پورے کاروبار کی ذمہ داری سنبھالتا ہے۔
مکیش پیچھے کی طرف نہین دیکھتا۔ حوصلہ ہارنا اسے اس کے باپ نے نہیں سیکھایا۔ مکیش ۱۹۸۴ میں جب چیدہ چیدہ کسی کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کا پتہ تھا، ریلائنس کمیونیکیشن لیمیٹڈ کی بنیاد ڈالتا ہے۔ ساتھ ہی پیٹل گنگا پیٹروکیمیکل پلانٹ لگاتا ہے۔ یہاں سے مکیش کی انفارمیشن کی صنعت اور پیٹرو کیمیکل کی صنعت میں قدم پڑتے ہیں۔ دن یونہی گزرتے جاتے ہیں اور بزنس کی دنیا میں مکیش اپنے قدم جماتا جاتا ہے۔ ۲۰۰۲ میں دیروبھائی کے انتقال کے بعد اب مکیش اور انیل دونوں بھائی الگ ہو کر اپنا اپنا کاروبار سنبھالتے ہیں۔
اس دوران مکیش امبانی جام نگر میں دنیا کی سب سے بڑی آئل ریفائنری کی بنیاد رکھتا ہے جو روزانہ ۶۶,۰۰۰ بیرل تیل سپلائی کرتی ہے۔ ساتھ ہی ۲۰۱۳ میں مکیش امبانی بھارت میں ۴ جی نیٹورک بچھانے کے لیے سرمایہ کاری کا اعلان کرتا ہے۔ ۲۰۱۴ میں امبانی بھارت بھر میں اگلے تین برسوں کے لیے ۱، ۳ کھرب روپیہ کی مختلف چھوٹے منصوبوں میں سرمایہ کاری کا اعلان کرتا ہے۔ ۲۰۱۶ میں امبانی جیو موبائل کے تحت اپنا موبائل لانچ کرتا ہے جو اسی سال بھارت کا تیسرا سب سے زیادہ بکا جانے والا موبائل بن جاتا ہے۔ امبانی اس کے منافع میں سے ا:ا کی مناسبت سے اپنے ملازمین کے لیے بونس اناؤنس کر کے تہلکہ مچا دیتا ہے۔ ۲۰۱۸ میں بزنس کی دنیا کے معروف مجلہ بلومبرگ رابن ھڈ انڈیکس کے تحت مکیش امبانی کی دولت کو بھارت کی وفاقی حکومت کے اگلے ۲۰ سال کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کافی قرار دیتا ہے۔
آج کی صورتِ حال کے مطابق مکیش امبانی
*فوربس میگزین کے مطابق دنیا کے طاقتور شخصیات کی فہرست میں شامل واحد بھارتی بزنس مین ہے۔
*پچھلے دس سالوں سے یہ سب سے ذیادہ امیر بھارتیوں کی فہرست میں اول نمبر پر ہے۔
*عالمی سطح پر مکیش دنیا کا اٹھارواں امیر ترین شخص ہے۔ جس کی ذاتی دولت پاکستان کی مجموعی زرِ مبادلہ سے کہیں ذیادہ یعنی ۴۴ ارب ڈالر ہے ہے۔
*مکیش امریکہ اور یورپ سے باہر دنیا کا امیر ترین شخص ہے۔
*بھارت میں مکیش پانچواں سب سے ذیادہ عوامی فلاح و بہبود و خیرات کرنے والا شخص ہے۔
یہ ہے ایک مڈل کلاس دو بیڈ روم کے اپارٹمنٹ میں رہنے والے دیرو بھائی امبانی کا بیٹا مکیش امبانی جس کا آج ذاتی گھر پاکستانی ڈیڑھ کھرب سے ذیادہ مالیت کا ایک ارب ڈالر سے زیاد کا دنیا کا مہنگا ترین گھروں میں سے ایک گھر ہے۔ امبانی آج بھی اپنے بیوی بچوں کے ساتھ بمبئے بھارت ہی میں رہتا ہے۔ یہ تو تھے اس کے حالات۔ اب اس کے بچوں کی طرف آتے ہیں اس کے دو بیٹے آننت، آکاش اور ایک بیٹی ایشا ہیں۔
ایشا کی آج کل شادی کی رسومات جاری ہیں جس کے اوپر اندازاً ۱۰۰ کروڑ کا خرچہ آئے گا۔ دنیا بھر سے اعلٰی ترین شخصیات اس شادی میں شرکت کر رہی ہیں جس شادی کو دنیا کی مہنگی ترین شادیوں میں سے ایک قرار دیا جا رہا ہے۔ ہر چیز کو دیکھنے کے مختلف زاویے ہیں، ایک طرف یہاں اتنا پیسہ اس شادی پر خرچنے کے خلاف دلائل بہت شد و مد سے دیے جا رہے ہیں تنقید کا سلسلہ جاری ہے ہیں کہ سادگی سے یہ شادی کی جاتی اور غرباء میں یہ رقم تقسیم کی جاتی۔ یہ شان و شوکت دکھا کر زخموں پر نمک چھڑکا گیا ہے۔
ہمارے نزدیک دوسرا ایک اور زاویہِ نگاہ بھی ہے اور یہ وہ دلیل ہے جو بہت اپنے اندر بہت مضبوطی رکھتی ہے۔ جو کہ یہ ہے کہ اس ایک شادی نے ہندوستانی معیشت میں ۱۰۰ کروڑ یعنی ایک ارب روپیہ شامل کیا ہے۔ جو شادی کے انتظامات کی شکل میں مختلف پروجیکٹس اور بزنس میں سرمایہ کاری کی شکل میں لگا۔ جس سے ہندوستانی معیشت کو زبردست فائدہ ملا۔ وہ پیسہ جو بنکوں میں یا تجوریوں میں بند ہو سے وہ پیسہ جو سرمایہ کاری کی شکل میں لگے ہزار گنا بہتر ہوتا ہے کیونکہ اس سرمایہ کاری سے بہت سے کاروبار چل پڑتے ہیں۔ روزگار ملتے ہیں اور معیشت کا پہیہ رواں رہتا ہے۔ پھر وہ شخص جو لاکھوں لوگوں کو ڈائرکٹ اور کروڑوں کو ان ڈائرکٹ روزگار دے رہا ہو جو بھارت میں اربوں کے قریب خیرات اور عوامی بہبود کے کام کر رہا ہو جو ملک میں سب سے ذیادہ ٹیکس دینے والوں میں ہو اسے حق بنتا ہے کہ اپنے پیسے کو اپنے اوپر خرچ کرے اور وہ بھی اس انداز میں کہ اس خرچ کو بھی اپنے ملک میں کر کے لا محالہ ملکی معیشت کو ہی فائدہ دیا جا رہا ہو۔ دوسرا اس شادی کے دوران ۱۱۰ چارٹرڈ فلائٹس سے دنیا بھر کے معزز مہمانوں کو اودے پور لے جایا جا رہا ہے۔ اودےپور میں چار دن ۵۱۰۰ شہریوں کو امبانی کی جانب سے تین وقت کھانے کی دعوت ہے۔ اودےپور میں ایک نمائش لگائی گئی ہے جہاں اودےپور اور اس علاقے کی ثقافت و روایات کو مہمانان کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ جس سے بھارتی ٹورازم کو زبردست فروغ ملے گا۔ اودے پور میں دنیا جہان سے صحافی اس موقع کو کور کرنے آئیں ہیں۔ جو اپنے چینلز پر اس بارے میں رپورٹنگ کریں گے۔ گویا اودےپور اور اس علاقے کی قسمت پلٹ جائے گی۔
اس واسطے ہمارا نقطہِ نظر یہی ہے کہ ہمیں فقط تنقیدی اندازِ فکر سے باہر نکل کر مثبت انداز سے چیزوں کو دیکھنا اور اپنانا چاہیے اور اس سے سبق سیکھنا چاہیے۔ یہی انداز ہمارے لیے بھی اور ملک کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہو گا۔