۲۰۰۷ کی بات ہے ملک پر جنرل پرویز مشرف کی حکومت تھی۔ ملک کے معاشی حالات کافی بہتری کی جانب گامزن تھے۔ بیرونی وفود کی آمد و سرمایہ کاری کا دور دورہ تھا۔ سیکیورٹی کے حالات تسلی بخش تھے۔ نوکریاں نکل رہی تھی۔ نئے کالج یونیورسٹیاں کھل رہی تھیں۔ بسنت کی وجہ کر کے بہار کے موسم میں لاہور عالمی سیاحتی مرکز بنتا جا رہا تھا اور انہی دنوں میں لاہور شاپنگ فیسٹول شروع ہو گیا تھا، اس تہوار کی وجہ سے ہوٹلز کی بکنگ کئی کئی ماہ پہلے فل ہو رہی تھی۔
پھر لال مسجد والے اٹھے اور انہوں نے ریاست کے اندر ریاست بنانے کی پلاننگ کی۔ وہ پاکستان میں ملاعمر والا نظام لانا چاہتے تھے۔ مسجد میں مورچے بن گئے اور آئے روز لوگوں کو اٹھوا لیا جاتا اور انہیں دھمکی دے کر چھوڑا جاتا متوازی عدالت لگنا شروع ہو گئی۔ جن کو چاہا مذہب کے نام پراغوا کر لیا جاتا۔ حالات بگڑنے لگے۔ بیرونی سیاح و سرمایہ دار اسلام آباد آنے سے گھبرانے لگے۔ ان دنوں میں پورے ملک پر دہشت کا عالم چھا گیا صحافی تو صحافی، سیاستدان بھی ان کے خلاف ایک لفظ منہ سے نکالنے سے ڈرنے لگے۔ تب ایک نوجوان ان سب کے درمیان سے ابھر کر سامنے آیا اور اس نے کہا ان جلادوں کے خلاف آپریشن کرو اسلام آباد کو ان دہشت گردوں سے پاک کرو یہ ملک کو برباد کر رہے ہیں، اس بہادر نوجوان کا نام سید فیصل رضا عابدی تھا۔
فیصل، پیپلز پارٹی سے نظریاتی تعلق رکھنے والا کراچی کا ایک تعلیم یافتہ پر عزم نوجوان تھا۔ بینظیر بھٹو کے لیے شدید جذباتی وابستگی، بھٹو ازم سے عقیدت اور ایک روشن خیال ترقی کرتا ہوا پاکستان جس کا خواب تھا جہاں ہر کسی کے لیے کسی مذہبی فرقہ وارانہ عصبیت کے بغیر جینے کے یکساں مواقع ہوں۔ ۲۰۰۸ میں اسے کراچی کی پیپلز پارٹی کی تنظیم کا صدر مقرر کر دیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب پارٹی کراچی سے تقریباً معدوم ہو چکی تھی۔ الطاف حسین کے مقابل کسی کو کھڑا ہونے کی جرات نہ تھی ان دنوں میں اس نے پارٹی سنبھالی اور کراچی ونگ میں جان ڈال دی۔ جب بینظیر صاحبہ کا جہاز کراچی اترا تو تاریخ نے وہ نظارہ دیکھا کہ پاکستان میں آج تک کسی کا ایسا استقبال نہ ہوا تھا۔
پاکستان میں طالبان اور تکفیری دیوبندی کی دہشت گردی کی وجہ سے حالات دن بدن بگڑ رہے تھے روز ہونے والے دھماکے اور جنوبی وزیرستان اور سوات میں بیٹھے ُملا دھڑلے سے ذمہ داری قبول کرتے تھے مگر یہاں سب جان کے خوف میں مبتلا ان کے خلاف ایک لفظ نہ کہتے تھے۔ ایسے حالات میں پھر فیصل سب سے آگے نظر آئے اور کھل کر ان کے خلاف آپریشن کے حق میں آواز لگائی اور پھر جس کا نتیجہ ۲۰۰۹ میں ہونے والا آپریشن راہِ نجات جو جنوبی وزیرستان اور سوات میں ہونے والا آپریشن راہِ راست کی صورت میں نکلا۔ دہشتگرد فی النار ہوئے اور وہ علاقے فوج نے ان کے قبضے سے واگزار کروائے۔ تب بھی ان دہشت گردوں کے خلاف سب سے توانا آواز فیصل کی تھی۔
ان دنوں جہاں روز روز ہونے والے دہشت گردوں کے حملے میں معصوم پاکستانی شہید ہو رہے تھے وہاں ہمارے ہی نمائندے، ایک لفظ بھی ان سفاک دہشت گردوں کے خلاف نکالتے ہوئی لرزاں بدنداں تھے وہیں فیصل آگے بڑھا اور اس نے وائس آف شہداء نام سے ایک پلیٹ فارم بنایا ساتھ میں اس نے معتدل مزاج مذہبی جماعتوں سنی اتحاد کونسل اور مجلس وحدت مسلمین کو ملایا اور کھل کے ان ہزاروں شہداء کے حق میں آواز بلند کی جس کا نتیجہ آپریشن رد الفساد کی صورت میں نکلا۔ اور شمالی وزیرستان کو دہشتگردوں سے پاک کیا گیا۔
تو یہ ہے فیصل رضا عابدی، وہ شخص جو دن رات شہداء کی حق میں آواز بلند کرتا رہتا جس کے لیے اسے اس کی پارٹی چھوڑنی پڑ گئی۔ جس کے لیے اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں وہی فیصل جب یہ دیکھتا کہ ہماری عدلیہ جس کے پاس ان دہشت گردوں کے خلاف مقدمے آتے ہیں تو وہ ان مقدموں کو سنتی نہیں ہے۔ اور اگر سنتی ہے تو انہیں بری کر دیتی ہے تو اس کا دل کڑھتا۔ وہ حیران تھا کہ سموسے پکوڑوں پر سوو موٹو ایکشن لینے والی عدلیہ کو معصوم پاکستانیوں کا دہشتگردوں کے خنجروں سے بہتا خون کیوں نہیں دکھتا اس نے اب عدلیہ سے سوال کرنا شروع کیا۔ تب اس نے گہرائی میں جا کر عدلیہ کے ہاتھ کرپشن میں لتھرے دیکھے تو سوال اٹھائے۔ جنہیں سن کر عدالتی ایوانوں میں جیسے زلزلہ آ گیا۔
کہتے ہیں جب کوئی دلیل کا سامنا نہ کر سکے تو وہ انتقام پر اتر آتا ہے۔ اور یہی ہوا فیصل کو توہینِ عدالت پر بلا لیا گیا۔ اور وہیں اس پر انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے سیکشن ۷ کے ایکٹ کے تحت گرفتار کر دیا گیا اور پھر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔
ابھی تک ہم مذہبی دہشتگردی دیکھتے آئے تھے آج عدالتی دہشتگردی دیکھی۔ فیصل دہشتگردی کے مقدمے میں جیل میں بند ہے۔ وہ پاکستانی قوم جن کے حق کے لیے اس نے سیاست چھوڑ دی۔ سینیٹر شپ سے استعفٰی دے دیا۔ جن کے لیے اسے اپنے کاروبار کو قربان کرنا پڑ گیا۔ اب اس قوم کا امتحان ہے کہ وہ فیصل کے حق میں آواز اٹھائیں۔ ہمارا میڈیا اس سلسلے میں مکمل جانبدار ہو چکا ہے۔ لگتا ہے یہ دہشتگردوں کا میڈیا ہے اور فیصل کو ان کے خلاف آواز اٹھانے کی سزا دے رہا ہے وہ ٹاک شوز جن کی کبھی ریٹنگ اس کے آنے سے بڑھ جاتی تھی وہاں اس کے لیےمکمل خاموشی ہے۔
ان حالات میں ذمہ داری آپ پر، مجھ پر، اس قوم پر آ چکی ہے جن کے لیے وہ آواز اٹھاتا رہا کہ ہم اس کے لیے آواز اٹھائیں۔ ہم کمرشل لبرل بن کر نہیں حقیقی پاکستانی قوم بن کر اپنے اس قابلِ فخر اور دلیر سپوت کے لیے آواز اٹھائیں۔ یہ دور سوشل میڈیا کا ہے یہاں آپ اپنی آواز دوسروں کو سنا سکتے ہیں۔
اگر ہم فوجی مارشل لاء، ملا مارشل لاء کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں تو ہمیں عدالتی مارشل لاء اور پولیس گردی کے خلاف بھی کھڑا ہو کے ثابت کرنا ہو گا کہ فیصل اکیلا نہیں ہم اس کے ساتھ ہیں۔ اور ہم اپنے ملک کے لیے ہر طرح کی ڈکٹیٹرشپ کے خلاف آخری فتح تک جنگ جاری رکھیں گے۔