علامہ اقبال اور جون ایلیا کے نام سے منسوب ایام ایک دن کے وقفے سے آتے ہیں۔ جون صاحب کی برسی ۸ نومبر کو ہےاور علامہ اقبال کی یومِ پیدائش ۹ نومبر کو ہے۔ سوشل میڈیا پر ان دنوں ایک رجہان خاص طور پر دیکھنے میں آ رہا ہے، کہ ان ایّام میں جون کو تو بہت یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی یاد میں ان کے اشعار شئیر کیے جاتے ہیں جب کہ علامہ اقبال کیلیے ایک خاموشی ہوتی ہے اور اگر کچھ آتا بھی یے تو طنزیہ و تنقیدی انداز میں جیسے ایک مذہبی و جنونی شاعر ہو جس کا ایک مہذب معاشرے میں کوئی مقام نہیں ہو سکتا۔
اقبال کے ساتھ نا انصافی یہ ہوئی کہ مذہبی حلقوں نے ان کی زندگی میں انہیں کافر قرار دیا، اور حد سے بڑھے مذہب بیزار لوگوں نے انہیں اسلامی نشاطِ ثانیا کے حوالے سے ان کے اشعار کے بناء پر انہیں ایک رجعت پسند مولوی گردانا۔ جب کہ اقبال ان دونون اصناف میں سے کسی سے متعلق نہ تھے۔ اقبال تو اقبال تھے۔ اور ہندوستان میں واقعتاً ان سا دوسرا کوئی نہ تھا۔ بلاوجہ تو نہ تھا کہ جب مولانا محمد علی جوہر کو ایک دفعہ علامہ کہا گیا تو آپ نے ایسا کہنے والے کو ٹوک کے کہا کہ اس وقت ہند میں اگر کوئی علامہ ہیں تو وہ صرف اقبال ہیں، علامہ صرف انہیں ہی پکارا جائے گا
معاملہ یوں ہے کہ جون صاحب کے عشقیہ اشعار ہوں یا معاشرتی طنز پر مشتمل شاعری، لاریب کے بہت متاثر کن ہے اور متاثر الفاظ میں اپنا مطمعِ نظر کہنے کا فن جون خوب جانتے تھے۔ مگر، وہ اقبال نہ تھے۔ اقبال جیسی ہمہ جہت شخصیت شاعر، فلسفی، مفکّر، مدبّرِ قرآن، ماہرِ قانون، سیاستدان، آئینی سیاسی امور پر نظر رکھنے والے قوم کے رہنما، جون تو رہ گئے ایک طرف پوری اردو ادب میں آپ کو ایک بھی ایسی نادرِ روزگار شخصیت نہیں ملتی۔ کہیں غالب ہیں اردو ادب کے آفتابِ عالم تاب، تو کہین میر انیس ہیں انسانی جزبات اور طربیہ شاعری کے ترجمان، یہ سب اپنے اپنے میدان میں یکتا و اعلٰی ہیں مگر اقبال، ان میں کوئی بھی نہیں۔ بات مختصر کر کے ختم کی جائے تو یہ ہے کہ اقبال اگر آج ۹ نومبر کو سوشل میڈیا پر اتبا شئیر نہیں کیے جاتے یا ان کا تزکرہ نہیں ہوتا تو اس کی وجہ اقبال نہیں بلکہ ہماری سوشل میڈیا استعمال کرتی نسل کی کم علمی اور ان میں مطالعہ کا ناپید ہونا ہے۔
یہ نابالغین جو جون کو شئیر کرتے ہیں ان میں سے
*- کتنے ہیں جنہوں نے خطباتِ اقبال کا مطالعہ کیا ہے
*- کتنے ہیں جنہوں نے اقبال کا فلسفہِ خودی، فلسفہِ عشق، فلسفہِ مردِ مومن، فلسفہِ قومّیت، فلسفہِ شاہین کا تفصیلی و تقابلی مطالعہ کیا ہے
*- کتنے ہیں جنہوں نے یہ سب چھوڑیے صرف کلیاتِ اقبال ہی مکمل پڑھی ہے
*- کتنے واقفانِ حال ہیں کہ عالمی زبانوں میں سوائے اقبال کے کتنے باقی شعراء و ادباء کی تصانیف و تالیفات ترجمہ ہوئی ہیں اور کتنی زبانوں میں ہوئی ہیں
*- کتنے ہیں جنہیں یہ پتہ ہے کہ جتنا شرح، کلامِ اقبال کی عالمی ادب میں ہوئی باقی تمام اردو شعراء کی مل کے بھی نہیں ہوئی
*- عالمی ادب چھوڑیے صرف اردو ادب میں بھی شرح کلامِ اقبال کے سوا آپ کو اتنی تعداد میں کسی اور کی نہیں ملتی
*- کتنے ہیں اقبال کے سوا جنہیں پاکستان کے سوا دیگر ملکوں میں بھی قومی شاعر کا مقام حاصل ہے
*- کتنے جانتے ہیں کہ اقبال صرف پاکستان میں نہیں ہندوستان، بنگلہ دیش، ایرن اور ترکی میں بھی قومی شاعر کا مقام رکھتے ہیں
*- کتنے ہیں جو جانتے ہیں کہ اقبال تو اقبال ان کے بیٹے ڈاکٹر جاوید اقبال کو ایرن میں پسرِ ایرن کا مقام دیا گیا تھا
*- کتنے شاعر ہیں جنییں ایک طرف قائدِ اعظم اپنے رہبر، مولانا جوہر ہند کا واحد علامہ اور فیض ان کو اپنا بزرگ سمجھتے تھے
یہ حقیقت ہے کہ مقامِ اقبال وقت کے ساتھ پسِ پشت ڈال دیا گیا ہے جس میں دونوں طرف سے کردار ادا کیا گیا۔ اگر نااہل و جاہل صاحبانِ اختیار نے ۹ نومبر کی چھٹی منسوخ کر کے مقامِ اقبال گھٹانے کی مذموم کوشش کی جس کی وجہ ان کی کم علمی اور مقامِ اقبال سے نا آشنائی تھی تو دوسری طرف عوام کی بھی علم سے دوری اور کتب کا مطالعہ نہ کرنے کی وجہ، کہ کسی کو سوا اقبال کے ایک دو اشعار کے ان کی کسی شاعری فلسفہء، خطبات کی کتب کا نام تک نہیں معلوم۔
یاد رکھئے کہ جون کو سوشل میڈیا پر شئیر کرنا آسان ہے، اقبال کو شئیر کرنا مشکل ہے۔ کیوں کہ وہی شئیر کریں جو پہلے اس کو پڑھیں۔ یاد رہے اقبال کا پیغام تساہل ہسندی نہ تھا۔ وہ عمل کی بات کرتے تھے۔ اور عمل کی بات کرتے چاہے والدین ہوں، استاد ہوں یا حکیم الامت نالائق نسلیں ایسوں سے دور ہی بھاگتی ہیں۔